414

بے حس قوم !

 

اچھی پہچان کے ساتھ ساتھ ان کا کاروبار بھی ٹھیک ٹھاک تھا۔ علاقے کی نامی گرامی کاروباری شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔انتہائی اچھے اخلاق کے مالک اور مزدوروں کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری ان کے ہاتھوں میں تھما دینے والے تھے۔

ماہ صیام سے چند دن قبل اچانک حرکت قلب بند ہونے کے باعث جواں عمری میں ہی اپنے خاندان اور چار کم عمر بچوں کو چھوڑ کر اس دار فانی کو خیر آباد کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔موت برحق ہے آج ان کی باری تھی کل ہماری ہو گی۔ان کے اس دنیا سے جانے کے دو دن بعد ان کے پڑوسی کے بیٹے کی شادی تھی۔ان کے انتقال کے ٹھیک دو دن بعد اسی محلے اور گلی میں بینڈ باجے کی آواز پوری آب و تاب کے ساتھ سنائی دے رہی تھی اور پچھلی رات جسے ہمارے معاشرے میں مہندی کی رات کہا جاتا ہے اس رات بھی ان لوگوں نے تقریباً پورے محلے کی نیند حرام کی رکھی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اتنے گھٹیا اور بے غیرت ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس چیز کا احساس ہی نہیں کہ ہمارے پڑوس میں کسی کا بیٹا ،کسی کا بھائی ،کسی کا شوہر اور کسی کا باپ دو دن پہلے وفات پا جائے  اور ہم ان کے گھر کے سامنے سے بینڈ باجے کے ساتھ بارات لے کر جا رہے ہوں۔آپ اندازہ کیجیے کہ مرحوم کے والدین  اور بیوہ پر کیا بیت رہی ہو گی، مرحوم کے بچے جو ابھی کم سن ہیں ان کی دلی کیفیت کیا ہو گی؟ اور سب سے اہم بات یہ تمام رسومات(بینڈ باجے اور دیگر غیر شرعی)فضول اور اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث ہیں ان کو ترک کرنا چاہیے اور اگر بھنگڑا اور بینڈ باجا اتنا ہی ناگزیر ہو چکا تھا تو بارات متاثرہ  گھر کے سامنے سے خاموشی سے بھی گزر سکتی تھی اور کچھ فاصلے پر جا کر بھی یہ گھٹیا حرکات کی جاسکتی تھیں۔

معزز قارئین ! ہمارے بزرگ بتاتے ہیں اور تھوڑا بہت ہمیں بھی یاد ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ گاؤں یا علاقے میں اگر کسی کے گھر موت کا فرشتہ چکر لگا جاتا تو پورے کا پورہ علاقہ سوگ میں ڈوب جاتا لوگ اپنی دشمنی بھلا کر اپنے دشمن کے دکھ میں شریک ہوتے۔گاؤں کے کسی بھی گھر میں ریڈیو،وی سی آر یا پھر ٹیلی ویژن نہیں چلایا جاتا تھا کیوں کہ تب لوگ سادہ تھے لیکن ان میں انسانیت زندہ تھی ان لوگوں میں احساس تھا وہ لوگ بے حس نہیں تھے۔وہ لوگ کم پڑھے لکھے ضرور تھے لیکن ایمان میں ہم سے ذیادہ مضبوط تھے۔موجودہ دور میں ہم اتنے سمارٹ ہو چکے ہیں کہ ہمارے اندر انسانیت کے ساتھ ساتھ احساس بھی انتقال کر چکا ہے۔ہم اعلی تعلیم حاصل کر کے بھی جاہل ثابت ہو رہے ہیں۔میرے ناقص خیال کے مطابق ان سب برائیوں کی وجہ صرف و صرف علم دین سے دوری ہے؛ قرآن و حدیث سے دوری ہے۔شاید ہم بھول گئے ہیں کہ ہم اس نبی علیہ الصلوۃ السلام کی امت ہیں جو جانوروں پر بھی رحم فرماتے تھے۔جنہوں نے ہمیشہ انسانیت اور احساس کا درس دیا ۔

دین اسلام جو بلاشبہ مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہمسایوں،رشتے داروں اور دیگر رفقاء کے حقوق کو علیحدہ علیحدہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جن کا علم رکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ علم دین سے دوری کے باعث ہم حیوانوں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔

بشکریہ اردو کالمز