حلقۂ گردن اور سازِ دلبری

امریکا اور اس کے ہم نوا اہل یورپ شدید مروڑ میں مبتلا ہیں۔ ان کو یہ خدشہ کھائے جاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا برسر اقتدار آنا عالمی امن کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا ، گویا اگر طالبان نے افغانستان میں انتہا پسندانہ اقدام کیے تو عالمی امن خطرے میں پڑجائے گا۔

افغانستان کے لوگوں کو جس طرح چھوڑ چھاڑ کر یا لپّا ڈکّی میں مبتلا کرکے امریکی رخصت ہوئے اس سے عالمی امن ذرہ برابر بھی متاثر نہیں ہوا۔ حالانکہ امریکا نے اپنی ’’ رجعت قہقری ‘‘ کے لیے جو انداز اختیار کیا وہ افغانستان میں صرف بے چینی کا سبب نہیں بنتا بلکہ پورے خطے کے امن و سکون کو برباد کرنے کا باعث ہوتا۔

مگر طالبان کی موجودہ قیادت نے اب تک جس دور اندیشی ، مصالحت پسندی اور برداشت کا مظاہرہ کیا اس سے امریکی منصوبہ بندی خاک میں مل گئی ہے اور خود افغانستان میں بھی کسی بڑی بد امنی کے آثار پیدا نہیں ہوئے اور اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد مسلسل مفاہمتی بیان دے رہے ہیں ، جو موجودہ طالبان کے عزائم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ ان کے بیانات پر مشروط طور پر اعتبارکیا جاتا اورکہا جاتا کہ ٹھہرو ، انتظار کرو اور دیکھوکہ آگے کیا ہوتا ہے۔ عام طور پر اہل مغرب کا دنیا میں انقلابات کے تعلق سے یہی رویہ رہتا ہے اور یہ درست بھی ہے مگر طالبان کے معاملے میں یہ درست رویہ ہی غلط بنا دیا گیا ہے۔ اب ہر ایک کی زبان پر یہی ہے کہ ’’ مصیبت آگئی ہے ‘‘ اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔

ادھر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اہل مغرب اس کو ہوا دے رہے ہیں اور وادی پنج شیر میں بار بار شورش کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ پنج شیرکے معاملے میں بھی طالبان کا رویہ مفاہمانہ ہے اور وہ جنگ و خوں ریزی سے امکانی حد تک بچنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اگرچہ وہ تین طرف سے وادی کا محاصرہ کرچکے ہیں اور بقول ان کے وادی پر قبضہ چند گھنٹوں کی بات ہے مگر وہ یہ قبضہ جنگ اور خوں ریزی کے ذریعے کرنا نہیں چاہتے۔ ان کے اس رویے کی حوصلہ افزائی کرنا عالمی برادری کا فرض تھا اور دیکھنا تھا کہ آگے چل کر وہ کیا رویہ رکھتے ہیں۔

مگر مغربی ممالک میں ایک ہی ہاہاکار مچی ہوئی ہے کہ افغانستان میں صورت حال بگڑ رہی ہے اور اس بگڑتی صورتحال پر گفتگو کے لیے جرمن وزیر خارجہ پاکستان جیسے ’’ غیر ترقی یافتہ ‘‘ ملک کی لیڈر شپ سے تبادلہ خیال اور غور و فکر کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔

افغانستان میں تو اہل افغانستان نے مجموعی طور پر طالبان کا خیرمقدم کیا ہے اگر صورتحال بگڑی ہے تو کابل ایئرپورٹ کے اندر بگڑی ہے جہاں امریکی افواج کے سہولت کار یعنی افغان عوام سے غداری کے مرتکب ہزاروں افراد ملک سے فرار ہونے کے لیے طیاروں سے لٹک کر مرتے اور امریکی افواج کی فائرنگ سے مارے جاتے رہے۔

ایک اندازے کے مطابق ایسے معصوم ’’ سہولت کاروں ‘‘ کی تعداد پچاس ہزار بتائی جاتی ہے اندازہ کیجیے کہ یہ اتنی بڑی تعداد میں امریکی پٹھوکسی قوم کے لیے بارود کا ڈھیر تو ہو سکتے ہیں امن کی فاختہ نہیں۔ یہ ملت فروش ، قوم دشمن اور دشمن پرست کہے جاسکتے ہیں اب یہی ادنیٰ لوگ جہازوں کے ذریعے باہر بھجوائے جا رہے ہیں۔

امریکی تو جا چکے ان کے سہولت کار پاکستان کے سرمنڈھے جا رہے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بس یہ چند دن قیام کر کے اپنی ’’ منزل ‘‘ کی طرف روانہ ہو جائیں گے مگر جس طرح ان کے لیے ہوٹل خالی کرا کے لوگوں کو بے آرام کرکے ان کے آرام کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا ہمارے ملک پر رحم فرمائے۔ سراج الحق صاحب نے یہ درست کہا ہے کہ ان کا ملک میں ’’بسانا‘‘ کورونا سے زیادہ خطرناک ہوگا۔

شاید مغربی ممالک سمجھتے ہیں کہ ان کے شوروغوغا کے باعث اہل دنیا اس صورتحال کی اصل غایت کو نہ سمجھ پائے اب جرمن وزیر خارجہ کی طرح فرانس اور برطانیہ کے ارباب حل و عقد ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیں گے اور یہ باور کرائیں گے کہ افغانستان میں قیامت آگئی ہے۔

افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور سیاسی سوجھ بوجھ کی حامل شخصیت گلبدین حکمت یار نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے اگر طالبان افغانستان میں متفقہ حکومت بنالیں تو بھی امریکا اور اتحادی اسے قبول نہیں کریں گے ، اس لیے وہ تو طالبان کو ہی اپنی حکومت کی تشکیل کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ادھر خود طالبان کوشش میں ہیں کہ کم ازکم ’’ متفقہ اور قابل قبول ‘‘ حکومت وجود میں آئے اور یہ رویہ بھی مناسب اور معقول ہے اور عالمی لیڈر شپ کو طالبان کے رویے کو پرکھنے کے لیے نہ صرف وقت دینا ہوگا بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی دکھانا بھی ضروری ہوگا تاکہ افغانستان میں پرامن اور مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آئے۔

ادھر پوپ فرانسس نے جوکیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا ہیں اپنے پیروکاروں سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے روزہ رکھیں۔ یہ بظاہر ایک معصومانہ اور مخلصانہ اقدام ہے مگر یہ بھی اس مفروضے پر استوار ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور وہاں پرامن طور پر طالبان کے قبضے کو ہنگامہ آرائی اور فساد سے تعبیر کیا جائے اور اس فساد سے نجات کے لیے روزہ رکھا جائے ، لیکن بہرحال یہ ایک مذہبی لیڈر کی طرف سے انسانیت کے فروغ کے لیے نیک نیتی قرار دیا جاسکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ آج