188

ریاست مدینہ میں تو ایسا نہیں ہوتا

میرا مالی محمد سجاد اسے لے کر میرے گھر آیا وہ رشتے میں اس کی بہن تھی۔ اس کا بیٹا بھی مالی تھا، جسے چند سال قبل میری کالونی کی ایک کوٹھی میں تعینات ایک گارڈ نے مذاق مذاق میں ناراض ہو کر گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ وہ یہ داستان سنانے آئی تھی کہ بیٹے کے قاتل کو عدالت نے بری کر دیا ہے، کیونکہ ہمارے وکیل نے کیس اچھی طرح نہیں لڑا، حالانکہ زیورات، گھر کا سامان بیچ کر اسے ایک لاکھ روپیہ فیس بھی دی تھی۔ مَیں نے کہا، یہ تو دن دہاڑے ہونے والا قتل تھا، پھر ملزم بری کیسے ہو گیا؟ آپ ہائی کورٹ میں اپیل کرو۔ میری اس بات پر اس نے ہاتھ جوڑ دیئے، اپیل نہیں کر سکتے، وکیل تین لاکھ روپے فیس مانگ رہا ہے، ہمارے پاس تو دو وقت کی روٹی کھانے کے پیسے نہیں۔ مَیں نے پوچھا پھر مَیں کیا کروں، کسی وکیل سے بات کروں؟ کہنے لگی کوئی فائدہ نہیں، جس وکیل نے پیسے لے کر درست کیس نہیں لڑا، بغیر پیسوں والا وکیل کیا لڑے گا؟ آپ بس وزیر اعظم عمران خان سے کہیں ہماری مدد کرے، قاتل سے حساب تو اگلے جہان بھی ہو جائے گا، مگر دنیا میں زندہ رہنے کے لئے مجھ بیوہ کو، جس کا جوان بیٹا قتل کر دیا گیا اور چھوٹے چھوٹے بچے، جن میں معصوم بیٹیاں بھی ہیں، پالنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔ مَیں نے تسلی دینے کے لئے کہا کہ کچھ کرتا ہوں، حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ مَیں کچھ نہیں کر سکتا، یہاں ایسے مظلوموں کی مدد کرنا کسی کی ترجیح ہی نہیں۔ مَیں نے کہا، آپ بیت المال پاکستان کے چیئرمین عون عباس کو درخواست دیں، اچھے آدمی ہیں ضرور مدد کریں گے۔ پھر مَیں نے مالی محمد سجاد کو سمجھایا کہ درخواست کیسے بھیجنی ہے؟ شناختی کارڈ اور مثل کی ایف آئی آر لے آؤ تو مَیں بھی بھیج دوں گا۔

وہ جانے لگے تو محمد سجاد نے کہا: ”سر یہ آج کل بہت گھبرائی ہوئی ہے، آپ اسے تسلی دیں“ مَیں نے سبب پوچھا تو محمد سجاد نے جو کہا میرے اندر کپکپی طاری ہو گئی۔ اس نے کہا اس کی آٹھ سے دس سال کی دو بیٹیاں ہیں، آج کل یہ اسی خوف میں مبتلا رہتی ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو زینب کے ساتھ ہوا، جو نور کے ساتھ بیتی۔ ٹی وی پر جب بھی کسی معصوم بچی کی، درندہ صفت کے ہاتھوں موت کا سنتی ہے تو رونے لگتی ہے۔ کہتی ہے اب تو ان کے سر پر باپ کا سایہ بھی نہیں اور بھائی بھی منوں مٹی کے نیچے جا سویا ہے…… انہیں سکول کیسے بھیجوں، باہر کیسے کھیلنے دوں، کوئی انہیں لے گیا اور ان کی کھیتوں سے لاش ملی، تو یہ صدمہ کیسے برداشت کروں گی؟ پہلے ہی جوان بیٹے کی لاش اٹھا چکی ہوں …… محمد سجاد کے بقول سب بھائی بہن اسے مل کر بہت سمجھاتے ہیں، مگر وہ اپنی زینت اور نور کے ساتھ کچھ ہو جانے کے خوف سے نہیں نکلتی۔ سچی بات ہے اس وقت میرا ذہن ماؤف ہو گیا اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں؟ اس کی آنکھوں میں تیرتے بے بسی کے آنسو مجھے تازیانے محسوس ہو رہے تھے۔

مَیں اسے کہنا چاہتا تھا کہ وہ خوف زدہ نہ ہو، یہاں حکومت ہے، پولیس ہے، اردگرد لوگ ہیں، بہن بھائی ہیں، کوئی تمہاری بیٹیوں کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا، مگر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ جن کا نام لے کر میں اسے تسلی دینا چاہتا ہوں، وہ تو اسے انصاف نہیں دے سکے۔ اس کے جوان بیٹے کی دن دیہاڑے موت کا حساب بھی نہیں لے سکے۔ اُلٹا اس کی جمع پونجی بھی خرچ ہو گئی اور آج وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کسی غیبی امداد کی راہ دیکھ رہی ہے۔ تاہم اسے کچھ کہنا تو تھا، کچھ تسلی کے حروف تو بولنے تھے۔ ہم جیسے لوگ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ لفظوں کی جگالی کر کے مطمئن کرنے کے سوا…… مَیں نے اسے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں، اب ایسے درندوں کے خلاف قانون پاس ہو چکا ہے، انہیں موت کی سزا دی جاتی ہے، زینب کے قاتل کو پھانسی پر چڑھا بھی دیا گیا ہے، باقی بھی نہیں بچیں گے، بس اپنی بچیوں کی حفاظت کرو، ان پر نظر رکھو، کسی اجنبی سے ملنے نہ دو، سکول خود چھوڑنے اور لینے جاؤ، سودا سلف ان سے نہ منگواؤ…… جب مَیں یہ کہہ رہا تھا تو مجھے لگا کہ اس کا خوف کم کی بجائے مزید بڑھ گیا۔ اگر اتنا کچھ اس نے ہی کرنا ہے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔

خیر وہ آنکھوں میں آنسو لئے چلی گئی۔ مَیں نے سوچا آج عثمان بزدار پر کالم لکھوں گا اور نہ وزیر اعظم عمران خان پر، نہ نوازشریف کی بیماری کا تذکرہ کروں گا اور نہ پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی کی خبروں کا، نہ دانش کی موت پر تبصرہ جھاڑوں گا اور نہ فیصل واؤڈا کی بوٹ دکھانے والی حرکت کا۔ آج صرف اس مظلوم عورت کا ذکر کروں گا، جس کا جوان بیٹا قتل کر دیا گیا اور جسے سب کچھ بیچ کر بھی انصاف نہیں ملا، جو ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والوں کی حکومت میں اپنی دو معصوم بچیوں کے ساتھ اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی کوئی درندہ زیادتی نہ کرے اور اس کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملیں ہم لکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا ہمارے قلم کے اشارے پر چل رہی ہے کالم لکھ دیں گے تو سب سیدھے ہو جائیں گے، وہ بھی جو عالیشان محلات میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بھی جنہیں قدرت نے زمین پر اختیار دیا ہے۔ ہمارے کالم سے سوئے ہوئے ضمیر جاگ جائیں گے اور قانون جو شرمناک حد تک غفلت کی نیند سویا ہوا ہے، ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے گا۔

سو آج یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ در حقیقت یہ اپنی بھڑاس نکال رہا ہوں۔ وہ مظلوم بیوہ عورت میرے اندر جو آگ لگا گئی ہے، اسے ان لفظوں کے ذریعے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، جبکہ جانتا ہوں کہ اس کا اثر کسی پر نہیں ہوگا۔ کسی صاحب اقتدار تک تو شاید یہ کالم پہنچے ہی ناں۔ آٹا اور چینی مہنگی ہو جائے تو حکمرانوں کی نیندیں ضرور اُڑ جاتی ہیں، کیونکہ انہیں بھوکے غریبوں سے خوف آتا ہے، لیکن انسانی جان اور عزت و آبرو کتنی بھی سستی ہو جائے، انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ یہ وہ طبقہئ اشرافیہ ہے جو اسمبلی میں بچیوں سے زیادتی پر سزائے موت کا بل آئے تو اس کی مخالفت کرتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ان کی بچیاں سکیورٹی کے حصار میں محفوظ ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ قاسم بیلہ ملتان کی ایک مظلوم بیوہ اپنی کمسن بچیوں کی وجہ سے کس خوف میں مبتلا ہے؟ اس کی تسلی کے لئے بھی کچھ کرنا چاہئے۔

سعودی عرب ایران اور متحدہ امارات میں بچیوں سے زیادتی کرنے والوں کی کنپٹی پر گولی مار کر سر عام سزا دی جاتی ہے، وہاں کئی کئی سال دوسرا کیس نہیں ہوتا۔ یہاں حکومتیں بدل جاتی ہیں، درندوں کا چلن نہیں بدلتا، شہباز شریف دور میں زینب مرتی ہے تو عمران خان کے دور میں نور درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ایک نہیں درجنوں واقعات ہوتے ہیں مگر ریاست ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ جہاں قانونی موشگافیوں کی وجہ سے قاتل چھوٹ جائیں، وہاں بچیوں سے زیادتی کرنے والے درندے کتنی مشکل سے سزا پاتے ہوں گے؟…… زینب کا قاتل عمران صرف اس لئے کیفر کردار کو پہنچا کہ پورا ملک زینب کے حق میں ہم آواز ہو گیا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کو بھی ہوش آ گیا تھا کہ لمبی تاریخیں نہیں دینی، جلد فیصلے کرنے ہیں …… ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، مگر اس میں ماں جیسی تڑپ تو کوئی نظر نہیں آ رہی۔ اس ریاست میں جینے والی مائیں تو آئے روز بچیوں کے قتل و آبروریزی پر عدم تحفظ اور خوف میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ معاشرے میں درندے کیسے پل رہے ہیں، ان میں اتنی بے خوفی کیسے آ گئی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا کیس سامنے آ جاتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ درندوں کے ہاتھوں مرنے والے بچوں کی لاشیں سڑکوں پر ملتی رہیں،

مگر ان کے قاتل درندوں کی لاشیں سڑکوں پر نہ لٹکائی جائیں۔ ایسے کیسوں میں ظالم درندوں کے خلاف انصاف لینے کے لئے پورے معاشرے کو میدان میں آنا پڑتا ہے، وگرنہ قانون موم کی ناک بن کر انہیں بچ نکلنے کا راستہ دکھا دیتا ہے …… معاشرتی درندوں کا پیدا ہونا کوئی انہونی بات نہیں، یہ مہذب ملکوں میں بھی پیدا ہوتے ہیں اور سخت قوانین والے اسلامی ممالک میں بھی…… اصل بات یہ ہے کہ ریاست کا ایسے واقعات کے بعد رد عمل کیا ہوتا ہے؟ وہاں ریاست ایک پھنکارتے ہوئے سانپ کا روپ دھار کر درندوں کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔ یہاں اسے مظاہرے کر کے، خدا کے واسطے دے کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مجرموں کے خلاف ایکشن لے۔ ایسی ریاست جہاں قاتل اور درندے دندناتے پھریں وہاں مظلوم مائیں عدم تحفظ کا شکار ہو کر بچوں سمیت گھروں میں نہ دبک جائیں تو اور کیا کریں؟

نوٹ: ”فوجداری قوانین کے مطابق قتل کے مقدمہ میں ریاست مستغیث ہوتی ہے، یعنی سرکار بنام ملزم“

بشکریہ اردو کالمز