113

نچلے طبقے کی آمدن میں اضافہ ضروری

وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی عروج کو چھو رہی ہے۔ اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آرہی ہیں اور عوام الناس اس میں اپنے ا پنے زاویہ فکر وسوچ کے لحاظ سے تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ مہنگائی سے مراد ہے اشیاء کی قیمتوں کا آمدن کے مقابلے میں بڑھ جانا یعنی آمدن اتنی ہی رہے یا اس نسبت سے نہ بڑھے جس نسبت سے اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں۔معاشیات کی زبان میں اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ زر کی بہت زیادہ مقدار کے مقابلے میں اشیاکی بہت تھوڑی مقدار کا حاصل ہونا۔ اقتصادی ماہرین نے اب خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مہنگائی کا عفریت ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پٹرول سے لے کر کھانے پینے کی بنیادی اشیا تک سب مہنگی ہو چکی ہیں۔جن میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ آنیوالے دن،مہینے اور سال پاکستانی عوام پر بھاری گزریں گے۔ماہرین اقتصادیات کے تجزیوں سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک حکومتی وزراکا تعلق ہے وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ پاکستان میں کوئی مہنگائی ہے۔ وزرا کا مؤقف ہے کرونا کے بعد پوری دنیا ہی مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرول اور دیگر خوردنی اجناس کی قیمتیں بڑھی ہیں،جن کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ یہ تمام اشیا درآمد کی جاتی ہیں، اسی لیے ملک میں گرانی کا طوفان آیا ہوا ہے لیکن ماہرین اقتصادیات اور باخبر حلقے اس حکومتی موقف کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ اجناس اور پٹرول و گیس کی قیمتوں اور ریٹس میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد ہوا ہے۔ اربوں ڈالر قرضے کے عوض آئی ایم ایف کی مینجمنٹ نے جو کڑی شرائط عائد کی ہیں اور جو ہم نے بہ امرِ مجبوری مانی بھی ہیں۔ اْس کے سبب مہنگائی کے اس عفریت نے جنم لیا ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بنا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی اصلاحات اور قانونی اقدامات کی تعریف کی ہے اور اطمینان کا اظہار کیا ہے مگر قسط ملنے سے پہلے آئی ایم ایف کے بورڈ کی میٹنگ ہو گی۔جس میں حتمی منظوری دی جائے گی، اس سے پہلے پاکستان کو کئی اقدامات کرنے ہونگے ،ان میں مالی انتظامات،قانونی اقدامات حکومت یہ سب کچھ کرے گی،تو آئی ایم ایف کا بورڈ اس پرو گرام کو منظور کرے گا اور پھر قسط ملے گی، اس پیش رفت سے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر اداروں سے بھی فنڈنگ ملنے میںآسانی ہو گی۔ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان نے مشکل ماحول کے با وجود بہتر پیش رفت کی ہے ۔یہ کہا جارہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ملک میں ڈالر کوآزاد چھوڑ دیا گیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ڈالر رکنے کا نام نہیں لے رہا اور روپے کے مقابلے میں اس کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہی شرح سودمیں اضافہ کیا گیا ،بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے گئے ہیں۔ اب بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے ٹیکس مراعات کم کی جائینگی، منی بجٹ بھی آئے گا اور ایک بار پھر مہنگائی بڑھے گی۔ مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ میں تقریباً 200 ارب کی کٹوتی کی جائے گی۔یقیناًآئی ایم ایف سے معاہدہ ملکی ضرورت تھی، اب معیشت کا علاج شروع ہو گا کیونکہ معیشت کو جو بیماری لگی ہے ،اس کا علاج ضروری ہو چکا ہے ۔علاج سے چند ماہ میں بہتری آ سکتی ہے لیکن الیکشن سر پر آ رہے ہیں، تو مہنگائی کے ہوتے ہوئے الیکشن مہم حکومت کیسے چلائے گی۔ ملک میں مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی اور نا صرف عوام بلکہ اب تو حکومت بھی مہنگائی سے پریشان لگ رہی ہے،کہا یہ جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے جو کہا پاکستان نے اسے ایسے ہی مان لیا ۔یہ بات نہیں شوکت ترین نے کچھ اپنی منوائی ہو گی۔ کچھ آئی ایم ایف کی مانی ہو گی، جب جا کر یہ ہوا ۔ آئی ایم ایف کی ایک بات جو مانی جا رہی ہے، وہ ہی مہنگائی کی جڑ ثابت ہو گی۔ وہ ہے تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ لیوی ٹیکس بتدریج بڑھایا جائے گا۔ 4 روپے ایک ماہ میں بڑھائے جائیں گے، اس طرح پٹرول مہنگا ہی ہو گا ۔لوگ جو مرضی کہیں کہ حکومت اب تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائے گی لیکن ہر ماہ 4 روپے لیوی ٹیکس لگنے سے پٹرول کی قیمت خود بخود بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں اب تک 19 یا شاید21 پرو گرام ہو چکے، آئی ایم ایف کے۔ جن میں ایک مکمل ہوا، اب اس پرو گرام کو دیکھنا ہے کہ مکمل ہوتا ہے یا نہیں۔ ہم اگر تھوڑی سی بھی گروتھ چاہتے ہیں تو ہمارا امپورٹ بل بڑھ جاتا ہے، ابھی بھی تھوڑی سی امپورٹ ہو ئی تھی ،آئی ایم ایف کا تخمینہ4 فیصد ہے کہ امپورٹ کی گروتھ ہو گی امپورٹ 75 بلین ڈالر پر پہنچ گئی۔ ماہر معاشیات کے مطابق دوسرے ممالک کچھ نہ کچھ کر کے10فیصد تک گروتھ لیکر گئے ۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کر کے بھی ترقی ہم کیوں نہیں کر پا رہے۔ ہمارے ہاں جو 2 فیصداشرافیہ ہے جنکی انکم 60 یا 70 فیصد ہوتی ہے انکو ہم مراعات دیتے ہیں۔ ہمارا سسٹم اس طرح چلتا ہے کہ پہلے کوئی فیکٹری لگائے اسے 200کروڑ کی مراعات دیں تا کہ وہ 20 یا 25 ہزار کی نوکری دے۔ جب حکومت ایک شخص کو اتنی مراعات دیتی ہے، 200 کروڑ کی اسکی آمدنی بڑھ جاتی ہے لیکن نیچے والے طبقے کو کوئی مراعات نہیں ملتیں۔ وہ پھنس کر رہ جاتا ہے اگر اس کو تبدیل کیا جائے یعنی نیچے والے طبقے کی انکم بڑھائیں تو انکی محنت سے اوپر والا طبقہ کی بھی انکم بڑھ جائے گی۔ اس طرح روپے کی سرکولیشن بہتر طریقے سے ہو جائے گی تو حکومت کو نیچے والے طبقے کی آمدنی بڑھانا ہو گی ۔ دیکھا جائے تو مہنگائی کا زیادہ پریشر شہروں میں ہے۔ مہنگائی میں سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا ہے وہ شہروں میں رہنے والا ہے ،جہاں اشیائے ضروریہ کے نرخ روز بڑھ رہے ہیں۔ مکان کے کرایوں میں گزشتہ ایک سال میں بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔ اشیائے خورد و نوش پر اٹھنے والے اخراجات ہر خاندان کے دوگنا ہو چکے ہیں۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اور بیرونی قرضوں کے دباؤ کی وجہ سے بجلی کے بل بھی دوگنا ہو چکے ہیں۔ڈالر کے اوپر بڑھنے کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ روپے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ بلوم برگ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرنسی ایشیا میں سب سے بری کارکردگی دکھا رہی ہے ،جس کی قدر مئی 2021 میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 152روپے تھی جو اب مزید کم ہو کر 177روپے ہو چکی ہے۔اس کا براہ راست اثر غربت میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے اور عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد تقریباً 40 فیصد ہو چکی ہے۔

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز