مہنگائی

 ایک خاتون اپنے شوہر کی دل کی بیماری سے بہت پریشان تھےں‘ ڈاکٹر نے انہےں مشورہ دیا کہ وہ اپنے شوہر کا دل تبدیل کرالیں‘ خاتون راضی ہوگئیں اور پھر کچھ دنوں ہی میں دل بدل دیاگیا‘ چند ماہ بعد خاتون ڈاکٹر کے پاس آئیں اور شکایت کی ‘غضب ہوگیا ڈاکٹر صاحب! میرے شوہر مکمل بدل گئے ہےں ‘پہلے جو وعدہ کرتے تھے پورا کرتے تھے اب خوبصورت وعدے تو پہلے سے بھی زیادہ کرتے ہےں مگر کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہےں کرتے‘ ڈاکٹر خاتون کی شکایت سن کر مسکرایا اور بولا! محترمہ سوری ‘آپریشن کے وقت میرے پاس کسی عام آدمی کا دل سٹاک میں نہےں تھا‘ میں نے ان کا دل ایک سیاست دان کے دل سے بدل دیا تھا ۔ یہ ایک عام سا اور قدرے گھسا پٹا لطیفہ ہے مگر ہمارے ہاں کے سیاسی رہنماﺅں پر پورا اترتا ہے الیکشن آتے ہی عوام ‘ایک عام امیدوار سے لے کر پارٹی لیڈر تک کے وعدے سننے لگتے ہےں اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد بھی سیاستدان وعدے ہی کرتے رہتے ہےں‘یہی کچھ شروع سے ہوتا آرہا ہے۔پی ٹی آئی کی تبدیلی کا وعدہ تو پارٹی کا ’ماٹو‘ بن چکا مگر حرام ہے جو ابھی تک کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہو‘ ہاں اتنا ضرور ہے غریبوں کے لئے اب سانس لینا بھی دشوار ہوچکا ہے‘ عام آدمی مہنگائی‘ بے روزگاری اور ناانصافی پر موت کے قرےب ہے لیکن کوئی پرسان حال نہےں‘آٹا اور چینی کی ملوں کے مالکان عموماً حکومتوں میں شامل رہتے ہےں بلکہ اسمبلی کے بیشتر اراکین کسی نہ کسی کاروبار اور تجارت سے منسلک ہےں۔

 جہاں سڑک نکلنی ہو‘ ائر پورٹ یا کسی اہم منصوبے کی منظوری دی جاتی ہے تو ظاہر ہے سب سے پہلے پارلیمنٹ کے ممبران ہی کے علم میں آتا ہے‘ سو یہ ایسی زمینوں کو جہاں یہ پراجیکٹ بننا ہو سستے داموں خرید لیتے ہےں اور پھر مال بناتے ہےں‘ یہی نہےں چینی آٹے کو چند روز سٹاک کرکے مصنوعی قلت پیدا کرکے کئی گنا دام بڑھاکر کروڑوں روپے کمالیتے ہےں‘ وزیراعظم کرپشن کیا ختم کریں گے؟وہ خود اپنی تقاریر میں انہی خیالات کا اظہار کرتے تھے کہ کس طرح پٹرول ‘چینی ‘آٹا‘مہنگا کیا جاتا ہے؟کیسے زمینیں مہنگی ہوتی ہےں‘ اب بھی وہی کچھ ہورہا ہے اب انہےں کون سمجھائے کہ آپ کے قریبی ساتھی ہی اس مہنگائی کا موجب ہےں‘ غریب آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کھانا اورکمانا مشکل ہوگیا ہے‘ لگتا ہے کہ غریبوں کو ختم کرکے ہی پاکستان سے غربت ختم کی جارہی ہے‘صدر ایوب کے دور میں ایک بار چینی مارکیٹ سے غائب ہوئی تھی اگلے روز حکومت کی طرف سے سخت اعلان کیاگیا کہ صبح تک چینی مارکیٹ میں نہ آئی تو ذخیرہ کرنے والوں کو الٹا لٹکا دیا جائے گا‘ اگلے دن ہی مارکیٹ میں چینی موجود تھی۔

 حکومتیں اپنے عملی اقدامات سے پہچانی جاتی ہےں محض بیانات ےا تقرےروںسے کچھ نہےں ہوتا‘بیانات پر سختی سے عملدرآمد کرانے والی شخصیت کا رعب داب بھی اہمیت رکھتا ہے ‘اب ہمارے پنجاب کے وزیراعلیٰ جتنے مرضی سخت بیانات بڑی بڑی شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کراتے رہےں ان کے بیانات کو سنجیدگی سے کون نہیں لیتا‘ عمران خان نے تو انہےں باقاعدہ اشتہارات میں اپنی تصاویر چھپوانے کا مشورہ بھی دیا ہے مگر مافیا پر بزدار صاحب کی شرافت اور دیانت کا کوئی اثر نہےں ہوتا‘جب وہ خود کہتے ہےں کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں تو عملی اقدامات کرنے والی مشینری ان کی باتوں کا کیا اثر لے گی؟ دوسری بات یہ ہے کہ اس ملک کے عوام بھی ڈنڈے کے ہےں ہم بطور قوم بھی کرپٹ ہےں حکومت مہنگائی کا اعلان نہ بھی کرے تو ذرا سی قلت پر تاجر حضرات قیمتیں کئی گنا بڑھا دیتے ہےں‘ آٹا مہنگا ہوا ہے تو اس کی وجہ دھند بارش بھی تھی سپلائی ذرا سی کیا متاثر ہوئی تو ذخیرہ اندوزوں نے دام بڑھادیئے‘آج یہ خبر چلے کہ پٹرول دو روپے لیٹر مہنگا کیا جائے گا بس خبر کےساتھ ہی پٹرول مہنگا فروخت ہونے لگتا ہے‘بجلی گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہےں‘عمران خان نظام بدلنے کی کوششوں میں ہےں جبکہ اس کے لئے پہلے ان کی کابینہ اور اسمبلی کے ارکان کو بدلنا ہوگا‘ اراکین اسمبلی تو صرف اپنی تنخواہوں کے بڑھانے کی کوشش کررہے ہےں۔

 سینیٹر ارب پتی ہوتے ہےں لیکن اب وہ بھی تنخواہ بڑھانے کابل لے آئے ‘وہ تو کچھ ارکان آڑے آگئے تو بل مسترد ہوگیا ورنہ ان کی تنخواہےں بڑھ جاتیں‘ عمران خان اپنے مشیروں کی تعداد کم کریں‘دوست نوازی کی بجائے عوام کو نوازیں‘لنگر شیلٹر ہوم ضرور کھولیں‘ گداگروں کو بھی وہاں پناہ دیں لیکن فی الفور اشیائے خوردنی اور دوائیں سستی کرنے کی پالیسی پر عمل کریں‘ ورنہ ٹڈی دل کا موسم ہے اور اتحادی بھی ہلچل مےں ہیں بس یہی حال رہا تو تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

 

بشکریہ روزنامہ آج