226

مہنگای بلاسٹ 

گزشتہ روز حکومت نے رات بارہ بجے پٹرول کی قیمت میں یک مشت بارہ روپے کا اضافہ کردیا  آج تک سنتے آئے ہیں کہ بارہ بجے سکھوں کو "کچھ کچھ " ہوتا ھے  کیا ہوتا ھے یہ معلوم نہیں مگر پاکستان عوام پر بارہ بجے مہنگائ بلاسٹ کرنے سے انکا رہا سہا دم بھی نکل گیا ھے واضح ہو کہ یہ جو دم نکلا ھے وہ غریب اور متوسط طبقے کا نکلا ھے امیروں اور رج کر کھاتے پیتوں کو کوی فرق نہیں پڑتا مہنگای سے مجروح عوام کی داد رسی کے لیے ایک وزیر صاحب نے فرمایا ھےکہ پٹرول کم استعمال کریں بہتر ہوتا کہ وہ طریقہ بھی بتا دیتے کہ کیسے کم استعمال کرنا ھے سرمچو کی سلائی سے آنکھ میں لگانا ھے یا آب زم زم کی مانند چھوٹی شیشی میں سینت کر رکھنا ھے اور بوقت ضرورت قطرہ قطرہ استعمال کرنا ھے ؟اگر حکومت پٹرول کے ساشے پیک 
مارکیٹ میں لے آئے تو چلے گا مہنگائ کے مارے ایک ناشکرے شخص کا کہنا ھے کہ جب خان صاحب اقتدار میں نہیں تھے تو بڑے بلند و بانگ دعوے کیا کرتے تھے اور دنیا جہاں کی مثالیں دیا کرتے جیسے کہ ہالینڈ کا وزیر اعظم سایئکل پر دفتر جاتا ھے مگر کیا ہوا کہ ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تو ہیلی کاپٹر میں گھومتے ہیں اور عوام سایئکل پر آ گئے  ھیں  ۔بھولا عوامی کہتا ھے وہ آج کل رکشے چنگچی میں بیٹھنے سے احتراز کرتا ھے کہ پہلے تو چنگچی والا با آواز بلند" اچھے دن آیئں گے "والا راگ الاپتا جاتا لیکن اب مہنگای نے جو طوفان برپا کیا ھے چنگچی رکشہ والوں نے  ناقابل اشاعت اور ناقابل سماعت صلواتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ھے جس سے بھولا کی حکومتی سپورٹ کو  ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ھے اسکے علاؤہ یہ خدشہ بھی ھے کہ کوی مہنگائ کا مارا  عاقبت نا اندیش پٹواری سوچ کا حامل شخص اسکی مرمت بھی کر سکتا ھے اور بھولے کی ناتواں جان میں اتنی سکت نہیں کہ صحت کارڈ کے زریعے دو ماہ تک علاج کا انتظار کر سکے کیونکہ  کارڈ میں فوری نوعیت کے مسائل کے علاج کی سہولت میسر نہیں ھے گزشتہ دنوں  محلے کے ایک آوارہ کتے نے بھولے کو کاٹ لیا بھولا  دو ماہ تک علاج کے لیے انتظار کرتا رہا اللہ اللہ کر کے اسکو ڈاکٹر کا دیدار نصیب ہوا اس نے بھولے کی حالت دیکھی تو بہت غضبناک ہوا  کہ فوری علاج کیوں نہیں کرایا تم کو یہ پتہ نہیں تھا کہ حادثات کا علاج صحت کارڈ پر نہیں ہوتا تو بھولے نے عرض کیا کہ جی مجھے تو یہ پتہ تھا البتہ کتے کو نہیں پتہ تھا ۔مہنگائ سے شروع ہونے والی بات اگر کتوں تک آ پہنچی ھے تو حکومت اور اسکے سرکردہ وزرا سے عرض ہے کہ کراچی شہر اور سندھ میں آوارہ کتوں کا راج ھے پہلے یہ کتے زہریلی مٹھائ کھلا کر مار دیے جاتے تھے اب حال یہ ھے کہ انسانوں سے زیادہ کتوں کی آبادی ھے اور جتھوں کی صورت میں ہر گلی کوچے میں گھوم رہے ہیں کہ بچے محفوظ ہیں نہ بڑے اور سندھ حکومت بھی ان کی طرف سے بے خبر ھے۔ نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب میں بھی صورت حال خراب ھے اور ایک معصوم طالب علم کتوں کے حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ایسے ہی بے شمار واقعات ہو جاتے ہیں مگر عمل محض رپورٹ طلب کرنے تک ہی ہوتا ھے اسکے بعد رات گئ بات گئ کے مصداق سب بھول جاتے ہیں اب حالات یہ ہیں کہ عوام بیزار ہیں مہنگای سے اور روز بڑھتی بجلی کی قیمتوں سے مگر حکومت احتجاج کرنے والوں سے بر سر پیکار ھے صحافیوں پر حکومتی عتاب نازل ہو رہے ہیں غرضیکہ تشدد کا ایک طوفان آیا ہوا ھے گویا حکومت نہ ہوئی مولا جٹ تے نوری نت ہو گئ اگر یقین نہ آئے تو ایف آئی اے کی جانب سے ہونے والی اقرار الحسن اور محسن بیگ کے خلاف کارروائی دیکھ لیں نہ جانے یہ سلسلہ کہاں رکنے والا ھے لیکن یہ یقین ھے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ،بجلی کے بلوں کی مد میں اضافہ اور اس نوعیت کے دوسرے بلاسٹ کا سلسلہ رکنے والا نہیں ھے ۔

بشکریہ اردو کالمز