روم کا حسن بہت دامن دل کھینچتاہے

احمد فراز نے روم کے سفر میں یہ شعر کہا تھا
روم کا حسن بہت دامن دل کھینچتا ہے
اے میری خاک پشاور تیری یاد آئی بہت
 یہی یاد مجھے ہر سال پشاور لے جاتی ہے اور واپسی کے بعد میں انتظار میں رہتا ہوں کہ وہ گھڑی کب آئے گی جب میں پھر عازم پشاور ہوں گا اس بار وہ گھڑی آئی تو ضرور لیکن مجھے وہ سکون اور طمانیت نہ مل سکی جوہر سال مجھے پشاور یاترا کے دوران ملتی ہے ۔
اس سال یکے بعد دیگرے ایسے واقعات پیش آئے کہ مجھے زیادہ تر وقت بستر میں گزارنا پڑا پہلے فلو ہوا‘ ابھی اس سے نپٹ رہا تھا کہ گھٹنے میں چوٹ لگنے کی وجہ سے دوبارہ بستر سے لگ گیا۔اس اثناءمیں تمام مصروفیات منسوخ ہوگئیں پشاور اور اسلام آباد میں لیکچر دینے تھے قدرے افاقہ ہوا تو پشاور میوزیم میں لیکچر دینے چلا گیا بھلا ہو ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی عبدالصمد خان کا اور ڈاکٹر علی جان کا جوہرسال میوزیم میں میرے لیکچر کا بندوبست کرتے ہےں۔
علالت کے دوران مجھ پر بہت سی باتوں کا انکشاف ہوا ایک یہ کہ پشاور میں (شاید پاکستان بھر میں) دوائیوں کے اصلی اور نقلی ہونے میں فرق نہےں‘ پشاور میں میرے معالج ڈاکٹر غلام شبیر نے کارٹی سون کے مختصر کورس کا مشورہ دیا‘ بازار سے گولیاں منگوائیں دکاندار نے کھلی بوتل میں گن کر گولیاں دےدیں لیکن انہوں نے کچھ اثر نہ کیا حالانکہ کارٹی سون ایک تیربہ ہدف دوا ہے اور فوراً اثر دکھائی ہے ایک کورس سے کچھ فائدہ نہ ہوا تو دوبارہ کورس کرایا گیا وہ بھی بیکار ثابت ہوا معلوم نہےں جس بوتل سے گولیاں دی گئی تھےں وہ کب کی کھلی ہوئی تھی ایک عرصہ کے بعد دوائیاں اپنا اثر کھودیتی ہےں‘خیبرروڈسے یونیورسٹی ٹاﺅن کی طرف جو سڑک جاتی ہے وہےں چوک میں ایک بہت بڑی دوائیوں کی دکان ہے میں ڈاکٹر کا نسخہ لے کر ان کے پاس گیا میں نے نسخہ دکھایا تو انہوں نے فٹا فٹ دوائیاں ایک لفافے میں ڈال کر لفافہ میرے ہاتھ میں تھما دیا ۔

میں نے لفافے میں سے دوائیاں نکال کر انکا نسخے کےساتھ موازنہ کیا ان میں سے ایک دوائی ایسی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے تجویز نہےں کی تھی‘ میں نے سیلز مین کی توجہ اس تضاد کی طرف دلائی تو وہ کہنے لگا کہ یہ وہی دوائی ہے جو نسخے میں لکھی ہوئی ہے میں نے اسے کہا کہ یہ وہ دوائی ہرگز نہےں ہے وہ قدرے بوکھلایا اور نسخہ لے کر بازو والی دکان میں گیا اور وہاں سے صحیح دوائی لے کر آیا اور دوائیاں لفافے میں ڈال کر میرے حوالے کیں ‘ اس نے پشیمانی کا اظہار کیا نہ غلطی کی معافی مانگی‘ ایسا ظاہر کیا کہ یہ معمولی بات ہو‘ میں نے ہیڈ سیلزمین کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی تو اس نے کہا ہاں یہ کبھی کبھی ہوجاتا ہے‘ میرے خیال مےںجب سیلزمین نے مطلوبہ دوائی شیلف میں نہ دیکھی تو اس سے ملتے جلتے نام والی دوائی اٹھا کر مجھے تھما دی یہ نہےں سوچا کہ جو دوائی وہ مجھے دے رہا تھا وہ میرے حق میں بہت مضر تھی ہمارے شہرمیں کتنے لوگ ہوں گے جو اس قسم کی لاپرواہی کی وجہ سے جان کھودیتے ہےں۔

پشاور پرانے وقتوں میں شہر ہفت رنگ اور پھولوں کا شہر کہلاتا تھا جب ظہیر الدین بابر نے ہندوستان جاتے ہوئے پشاور میں قیام کیا تھا تو اس نے اپنی سوانح میں لکھا کہ اس شہر میں ہر طرف پھول بکھرے ہوئے ہےں جہاں تک نظر جاتی ہے پھول ہی پھول نظر آتے ہےں لگتا ہے پھولوں کی پینٹنگ بنی ہوئی ہے‘ پھول بھی غارت ہوئے‘ پشاور کی نشیلی ہوائیں بھی رخصت ہوئیں ان کی جگہ کثافت نے شہر کو دبوچ رکھا ہے‘ سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے‘ میرے ڈاکٹر دوستوں کے کہنے کے مطابق پشاور میں گندی ہوا کی وجہ سے سینے اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے‘زکام اور نزلہ جو پہلے چند دنوں میں ٹھیک ہوجاتا تھا اب ہفتوں میں ٹھیک نہےں ہوتا‘ دمے اور چھاتی کی بیماریوں کے مریض تو اب دائمی مریض بن گئے ہےں‘ تبدیلی آب ہوا کےلئے ایک عام شہری کہاں جائے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بھی یہی کیفیت ہے کراچی ‘لاہور‘ راولپنڈی اور باقی شہروں میں بھی ہوا کی کوالٹی بہت کم ہوگئی ہے اسکے لئے جب تک حکومت کوئی دوررس منصوبے نہےں بناتی یہ گندگی یا پلوشن بڑھتی رہے گی۔
 
اس بار پشاور یاترا کے دوران بہت سارے دوستوں سے ملاقات نہ ہوسکی بہت ساری تقریبات میں شرکت نہ کرسکا لیکن ایک تقریب میں شرکت نہ کرنے کا بہت افسوس ہوا اور وہ تقریب تھی امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی انجمن(اپنا) اور خیبرمیڈیکل کالج کی امریکن المنائی ایسوسی ایشن کا سرمائی اجلاس جو چودہ سال کے بعد پشاور میں منعقد ہورہا تھا‘ اس اجلاس کی تیاری گزشتہ دو سال سے ہورہی تھی امریکہ سے بہت سے پاکستانی ڈاکٹروں نے اس تقریب میں شرکت کرنی تھی‘ اجلاس سے خطاب کرنے کےلئے وزیراعظم عمران خان نے آنا تھا یہ سب کچھ ہوا لیکن میری قسمت میں نہےں تھا کہ میں شرکت کرسکتا میں نے حامی بھری تھی کہ مندوبین کو پشاور شہر کی سیر کراﺅں گا اور انہےں بتاﺅں گاکہ ہمارا شہر‘ ایشیاءکا قدیم ترین شہرہے اور یہ کہ اس شہر نے تاریخ میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ کہ اس شہر کی گلیوں اور بازاروں میں اب بھی گزشتہ زمانے کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ زندگی امید پر قائم ہے اور مجھے امید ہے کہ ایسا موقع دوبارہ آئے گا۔

 

بشکریہ روزنامہ آج