114

کیا اپوزیشن کامیاب ہو پائے گی؟؟؟



موجودہ حکومت کو آئے چار سال ہونے کو ہیں. 2018 کے الیکشن کے فورا بعد ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس حکومت کا وجود ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا.
مولانا فضل الرحمن صاحب کا موقف یہ تھا کہ یہ دھاندلی سے آئی ہوئی حکومت ہے، انہوں نے پی پی اور مسلم لیگ ن کو مشورہ دیا تھا کہ اس الیکشن میں جیتنے والے اپنے تمام اراکین کو حلف لینے سے روک دیا جائے اور یوں ملک کی تینوں بڑی جماعتیں 2018 کے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں.
مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے مولانا فضل الرحمن کی اس بات سے اتفاق نا کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اسمبلی کے راستے بند نا کیے جائیں اور اس نظام کا حصہ بن کر ہی اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا جائے.
اب تینوں جماعتوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ کر اس حکومت کو آج یا کل چلتا کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے میں کوئی دن ہاتھ سے نہیں جانے دیا لیکن البتہ اس حکومت کے لیے اپوزیشن ابھی تک ایک دفعہ بھی مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور نا ہی گذشتہ چار سالوں میں اپوزیشن جماعتوں نے اس حکومت کے مینڈیٹ کو جائز تسلیم کیا ہے اور 5 سال کی مدت پوری کرنے کا ان کا حق تسلیم کیا ہے.
موجودہ حکومت کے معاملے میں مسلم لیگ ن کا موقف تھا کہ ہمارا جھگڑا اس سے نہیں نہیں بلکہ اس کو مسلط کرنے والوں سے ہے. یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ہمیں اقتدار سے کوئی غرض نہیں ہم بس صاف شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کا تقاضا کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کو اس کا مکمل حق اور اختیار دینے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں کہ وہ خود اپنی مرضی ات جسے چاہے حکومت کے لیے چن لے.
اس نظام کے خاتمے کے لیے، ملک میں سویلین سپرمیسی کے لیے، صاف شفاف الیکشن کے لیے، آئین کی بالادستی کے لیے اور اس قسم کے کئی خوشنما نعروں کے ساتھ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو قائم کیا گیا اور اس میں اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے شمولیت اختیار کی. بلند و بانگ دعوے ہوئے، ملک کو اس درست سمت پر ڈالنے کے ارادے ہوئے، "آئین و قانون سے بڑھ کر کچھ مقدم نا ہوگا" ایسے کئی انقلابی نعرے سامنے آئے اور تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے آئین و قانون کے متصادم نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا....
پی ڈی ایم کے جوش و ولولے کے ساتھ ملک بھر میں جلسے کیے گئے، عوام کو بیدار کیا گیا، میاں نواز شریف صاحب کی انقلابی تقریروں کے ذریعے انہیں بتانے کی کوشش کی گئی کہ آج تک کسی بھی حکومت کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہوتے اور ان کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں لیکن اب ان انقلابی لیڈران کو یہ ایک لمحہ کے لیے بھی گوارا نہیں اور اب اس ملک میں مکمل جمہوریت کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا.
لیکن اس نظام کو گرانے کے لیے جب قربانی دینے کا آغاز خود سے کرنے کی باری آئی تو پھر مولانا فضل الرحمن نہر والے پل پر اکیلے ہی انتظار کرتے ہوئے پائے گئے لیکن سوہنے ماہی نے ساتھ چلنے سے انکار کردیا اور پی ڈی ایم کے بلند و بانگ دعوے و وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے.
اب عدم اعتماد کا خوب چرچا ہے. اپوزیشن کی طرف سے آصف علی زرداری خاصے متحرک نظر آرہے ہیں. انہوں نے ق لیگ کو منانے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں اور لاہور اس وقت میدان سیاست کا سب سے گرم محاذ بنا ہوا ہے.
اطلاعات کے مطابق پرویزالہی صاحب کو  حکومت و اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ بنائے جانے کی پیشکش کی  جارہی ہے.
اگر ایسا ہوا تو یہ بھی جمہوریت کے لیے ایک عظیم قربانی ہوگی کہ پونے دو سو سیٹیں رکھنے والی جماعت نے چھ سات سیٹوں والی جماعت کے حوالے پنجاب کر دیا.
اگر یہ ہی کاروائی ڈالنی ہے تو پھر موجودہ حکومت میں کیا قباحت ہے وہ جیسی تیسی بھی ہے کم از کم اس کے پاس ق لیگ سے تو کہیں زیادہ ہی ووٹ بینک ہے.
اگر مسلم لیگ ن پرویزالہی صاحب کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے رضامند ہوجاتی ہے تو یقینا یہ مسلم لیگ ن کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا.
اقتدار بڑی عجیب چیز ہے اور اس کا نشہ انسان سے کیا کیا نہیں کروادیتا.
یہ اقتدار کا لالچ ہی تو تھا کہ پرویزالہی کو پنجاب کا سب سےبڑا ڈاکو کہنے والے عمران خان صاحب نے انہیں پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنوایا. ان کے بیٹے کو وفاقی وزیر بنایا، ان کے کیسز کو ختم کروایا، ان کی جماعت کو کھلا میدان فراہم کیا اور اس کے علاوہ جس موقعہ پر ان کا جو مطالبہ آیا اس کو پورا کیا گیا.
مشرف کے ساتھ مل کر مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے والے، عین وقت پر مسلم لیگ ن کو داغ مفارقت دے جانے والے، ایک ڈکٹیٹر کے اقتدار کو طوالت بخشنے والے، ڈکٹیٹر کو حکومت کا جواز فراہم کرنے اور اس کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے پرویزالہی کو اگر مسلم لیگ ن بھی پنجاب میں اقتدار فراہم کرتی ہے تو یہ عین ممکن ہے کیوں کہ اگر ہمارے سیاست دان اپنے ہی قائم کردہ اصولوں کو اپنے مفادات کے لیے پاش پاش نا کریں تو یہ بار بار ذلیل کیوں ہوں؟ 
اب تک کی اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن، پی پی پی اور جے یو آئی نے عدم اعتماد کامیاب کرنے کے لیے کمر کس لی ہے. 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت اپنی کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور ملک اس نہج پر آ کھڑا ہوا ہے کہ جس کو سنبھالا دینا اب دور دور تک آسان کام نہیں. اس وقت عمران خان کو اقتدار سے نکال باہر پھینکنا اس پر سیاسی احسان ہوگا. 
اگر یہ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو عمران خان کو اپنی ناکامیامیوں کا سارا ملبہ اپوزیشن پر ڈالنے کا ایک اچھا موقع مل جائے گا. 
اگر یہ عدم اعتماد کامیاب نا ہوئی تو اپوزیشن کے پلڑے میں سینٹ الیکشن کی ناکامی، چیئرمین سینیٹ کے لیے اکثریت ہونے کے باوجود ناکامی اور سٹیٹ بینک کے لیے کی گئی آئینی ترمیم کو روکنے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی ناکامی کی مزید ایک رسوائی آ پڑے گی.
روز بروز کی بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور چیختی چلاتی عوام کے معاملے میں اپوزیشن کسی موقع پر ان کی بھرپور نمائندگی نہیں کرسکی بلکہ انہوں نے حکومت کو ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے کہ حکومت عوام پر جتنا بوجھ ڈال سکتی ہے ڈالے تاکہ عوام چیختی چلاتی ہوئی انہی پارٹیوں کی جانب لوٹ آئے اور دوبارہ کسی کو  نیا تجربہ کرنے کا خیال تک نا آئے.
 

بشکریہ اردو کالمز