120

مجھے خود اس نے چنا ہے…

اللہ تبارک و تعالی نے یہ دنیا تخلیق کی، اس میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کی زندگی میں سہولت اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے حیوانات، نباتات اور انواع و اقسام کی چیزیں بھیجیں۔

کسی کو بہت سی نعمتیں حاصل ہیں اور کسی کی تمام زندگی محرومیوں میں گزر جاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اللہ کو ایسے لوگ محبوب نہیں ہیں جن کے پاس نعمتوں کی کمی ہے، خواہ وہ دولت ہو، اولاد یا صحت۔ اللہ کے دنیا کو تخلیق کرنے کے مقاصد اور انسانی فطرت کے تضادات ہی وہ عناصر ہیں ، جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرتے ہیں اور زندگی میں ہما ہمی قائم ہے۔

زندگی کے سفر میں آسانیاں بھی ہیں اور کٹھنائیاں بھی، کہیں موڑ ہیں، کہیں کھائیاں ، کہیں دور تک خوبصورت مناظر اور کہیں خطرناک راستے۔ یہ سب علامتی نشانات ہیں، زندگی میں آسانیوں اور مشکلات کے تصور کو واضح کرتے ہیں۔

اگر مشکل نہ ہوتی تو آسانی کا اندازہ نہ ہوتا، غربت اور تنگدستی نہ ہوتی تو کون یقین کرتا کہ وہ کتنا امیر ہے، کبھی پیاس سے حلق میں کانٹے اگنے لگیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پانی جیسی نعمت کہ جس کی ہم ناقدری کرتے ہیں، وہ کتنی بڑی دولت ہے ۔ بھوک نہ ہوتی تو رزق کی اہمیت کیسے معلوم ہوتی اور سب سے بڑھ کر بیماری ہوتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ عمر بھر کس نعمت کا ساتھ رہا ہے۔

بھوک، پیاس، افلاس، غریب الوطنی اور بیماری… اللہ تعالی کی طرف سے اس لیے ہمارے پاس آتی ہیں کہ ہمیں اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر ہو اور ہمیں ان لوگوں کا احساس ہو جن کے پاس یہ نعمتیں کبھی بھی نہیں ہوتیں۔کچھ لوگ ساری زندگی آزمائشوں میں مبتلا رہتے ہیں، ہمیں اللہ تعالی کی حکمت کا علم نہیں کہ کسی کو کس طرح کی آزمائش میں ڈالنے سے کیا ہو گا۔ اللہ تعالی نعمتیں دے کر بھی آزماتا ہے، انہیں نہ دے کر بھی اور دینے کے بعد واپس لے کر بھی۔ اصل میں یہی ہمارا امتحان ہے کہ ہم اللہ کی راہ پر کس حد تک اور کن کن حالات میں ثابت قدم رہتے ہیں۔

اگر اللہ ہمیں کسی نعمت سے محروم رکھے یا عطا کر کے واپس لے لے تو کیا ہم پھر بھی اس کی اطاعت کریں گے؟ اگر وہ ہمیں کوئی ایسی نعمت دے، جیسے عقل یا صحت… تو شیطان کے ورغلا نے میں آکر کیا ہم اس بات کا تکبر کریں گے کہ ایسا ہونے میں ہمارا اپنا کارنامہ اور محنت ہے۔  ہمارے ہاں پنجابی میں کہاوت ہے کہ کوڑے کے ڈھیر کے بھی دن پھر جاتے ہیں ۔ یعنی اس کا بھی کبھی نہ کبھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔

نہ ہی اللہ تعالی کسی کو بے مقصد آزمائش میں ڈالتا ہے اور نہ ہی کوئی آزمائش مستقل رہتی ہے اور نہ ہی کسی کو ایسی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے جس کا وہ متحمل نہ ہو سکتا ہو۔ اس حقیقت کو قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 286 میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، ’’ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ چار ماہ قبل جب پہلی بار میں نے ڈاکٹر کے منہ سے یہ سنا کہ مجھے کینسر ہو گیا ہے تو چند لمحوں یا منٹوں کے لیے نہیں بلکہ گھنٹوں کے لیے میرا دماغ شل ہو گیا تھا۔ راتوں کی نیند اڑ گئی اور دنوں کا چین بھی کھو گیا تھا۔

لگتا تھا کہ اس کے بعد زندگی میں کچھ اور نہیں، فقط مشکلات ہی ہوں گی۔ زندگی یک دم ’’بلیک اینڈ وائیٹ ‘‘ لگنے لگی۔ دو چار دن گزرے، تب مجھے اندازہ ہوا کہ اس طرح تومیں وقت سے پہلے گھل گھل کر ختم ہو جاؤں گی۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ مجھے یہ بیماری کسی انسان کی وجہ سے نہیں لگی، یہ میرے لیے آزمائش ہے، اس کے لیے مجھے اللہ تعالی نے چنا ہے۔ یقینا وہ جانتا ہے کہ میری استطاعت کیا ہے، سکت کیا اور برداشت کیا۔

قرآن پاک کی سورۃ ہود کی آیت نمبر۔9 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں، ’’ اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیںتو وہ بہت ہی ناامید اور ناشکرا بن جاتا ہے۔‘‘ مجھے احساس ہوا کہ میں نے عمر کا بیشتر حصہ اس نعمت کیساتھ گزارا ہے، اللہ نے مجھے کبھی کسی کا محتاج نہیں کیا، اب اگر مجھ پر ایسی آزمائش آ گئی ہے تو میں نے منفی کیوں سوچنا شروع کردیا ہے، کیوں میں مایوس ہوں کہ مایوسی کو کفر کہا گیا ہے۔

اب بھی اگر میں ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئی ہوں تو، اس بیماری کے علاوہ میرے پاس بہت سی نعمتیں ہیں، جو اب بھی اس بیماری پر بھاری ہیں، میرے پیار کرنیوالے رشتے، میرے لیے نیک تمنائیں رکھنے والے دوست، دعائیں کرنیوالے ہاتھ۔ ان نعمتوں کی وجہ سے میں اس بیماری کا مقابلہ کرسکوں گی۔ اس بات پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں ، کم ہے کہ میری اس بیماری کی تشخیص اولین سٹیج پر ہو گئی ہے، میرے پاس علاج کی سکت ہے اور مجھے بہترین اور انتہائی قابل ڈاکٹرمیسر ہیں۔

ان سب کو جب میں اپنی بیماری کیساتھ پلڑے میں رکھوں تو ان کا وزن اب بھی زیادہ ہے۔ سورۃ الرحمن کی تلاوت باقاعدگی سے بطور علاج سننے لگی تو اندازہ ہوا کہ ہمارے ارد گرد تو نعمتیں ایک جال کی طرح ہیں۔ اللہ تعالی ہم سے اس سورہ میں بار بار سوال کرتے ہیں کہ ہم اس کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا سکتے ہیں۔میںنے خود کو سنبھالا، کیوں اتنا گھبرا گئی تھی میں، کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ انسان کسی بیماری سے مر ہی جاتا ہے نا، موت تو بر حق ہے ، سب کو مرنا ہے، کسی نہ کسی وجہ سے، کسی نہ کسی بہانے سے۔

اگر میرے لیے یہی وجہ بننا ہے تو یہ کیا کم ہے کہ اس بیماری سے گزرنے کے دوران میرے پاس کافی وقت ہو گا کہ میں موت کے لیے بھی تیار ہو سکوں ، اچانک بھی تو مر ہی جاتے ہیں نا۔ اس کے بعد ایسے محسوس ہونے لگا کہ اگر میں اسی طرح سوچتی رہی تو میرے لیے سب مراحل آسان ہو جائیں گے ۔ علاج تو ہونا ہے، آپریشن، کیمو تھراپی، ریڈی ایشن،، انجکشنز اور دوائیں، سارے مرحلے طے کرنا ہوں گے۔ جیسے ہم پہلی بار کمرہ امتحان میں، مشکل پرچہ دیکھ کر یکدم پریشان ہو جاتے ہیں، پسینے چھوٹ جاتے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں… مگر پھر قلم تھام کر پرچہ حل کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ مشکل ہی سہی مگر اس امتحان کو حل تو کرنا ہے۔

خود کو دلاسہ دیا اور خود اپنی ہمت بندھائی ۔ میرے ارد گرد والوں کے دل تو میری تکلیف کا نام سن کر ہی کانپ گئے تھے، مجھے تسلی دیتے مگر اندر سے خود خوفزدہ تھے کہ جانے کیا ہو گا۔ ’’ میرا اللہ میرے ساتھ ہے!‘‘ اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے ہوتا ہے انسان کو۔ وہ ہر مرحلے میں میرے ساتھ ہو گا، میرا کارساز ہو گا، اس کی مدد شامل ہو گی تو میرے لیے سب آسانی ہے۔ جنوری کے اوائل میں میرا آپریشن ہوا اور کینسر کو نکال دیا گیا۔ جسم کے باقی حصوں یا غدودوغیرہ میں اس کی موجودگی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، آپریشن کے بعد کے تمام طریقہء علاج اسی لیے ہیں کہ یہ عفریت پھر جاگ نہ جائے۔ کیمو تھراپی کے مراحل سے گزررہی ہوں، آپ سب سے درخواست ہے کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی میرے لیے آسانیاں فرمائے، سب مراحل میں مجھے تکلیف اورمضر اثرات سے میرے جسم کے دفاعی نظام کو لڑنے کی ہمت دے۔

مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا، کیونکہ کسی اور نے نہیں، اس آزمائش کے لیے، مجھے خود اس نے چنا ہے!

بشکریہ ایکسپریس

بشکریہ ایکسپرس