190

تبدیل ہاں تبدیلی

ہم سب تبدیلی کے دور میں جئ رہے ہیں، کیا آپ نے غور کیا؟
 کسی بھی شے میں تبدیلی نہیں آئی کیونکہ یہاں چہرہ تبدیل ہوئے ہیں فکر تبدیل نہیں ہوئی ۔
"ہرطرف غلامی ہی غلامی ہے خود داری کے سوا" 
 تبدیلی احساس سے آتی ہے اور جس قوم کا  ضمیر ہی مردہ ہو وہ کیوں کر احساس کریں ۔ ماہ صیام میں اپنے ارد گرد نظر دوڑا دیجئے،ریاکاری کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا ۔
رمضان میں شیطان تو قید ہو جاتا ہے پر اصلی  شیطانیت  ابھر کے سامنے آتی ہے ۔بس جو بندہ رمضان میں جیسا دکھتا ہے فطرتا ایسا ہی تصور کیجئے ۔ اور کیسا؟
  روزے ہیں ہمسائے میں غریب غیر مسلم ہے انسانیت کیا تقاضا کرتی ہے ؟ جبکہ تین سے چار گھنٹے مسلسل آپ کے گھر سے پکوان کی خوشبو سونگھ رہا ہوتا ہے ، سعت افطاری کبھی در پر دستک دینے کی کوشش کی۔ ماشاء اللہ ، روزے سے ہیں چھت پر پرندے پیاس سے مررہے ہیں۔ کبھی  مٹکے میں پانی رکھنے کی زحمت کی ۔ ارے ہم ایسا  کیسے کرے ؟ ہمارے عقلی مٹکے  ہی خالی ہے ۔ ہم بھولی معذرت ! بھوکی پیاسی فرضی رسومات  پر عمل کرنی والی قوم ہے ۔ ہمیں کیا پتہ "فلسفہ صیام " کیا ہے ۔

جس قوم کا دین رسوماتی ہو شریعت کتاب خانوں میں اس قوم کو زندہ کہ کے  خوش مت ہوئے کیونکہ یہ قوم زندہ تو ہے پر کومے میں !  اپنی ذات تک سے بے خبر ، زندہ میںتوں  کی طرح ۔ کسی نے سچ کہا ہے!
" چلتی پھرتی میتیں ہیں"
 آپ تبدیلی کا جتنا بھی پرچار کریں اور جتنی مرتبہ دہرانے کی کوشش کرے ۔ کاش! میرے پاس اتنے پیسے ہوتے میں فلاں فلاں کام کرتا غریبوں کے لئے دستر خوان بچھاتا ،ایمبولینس خرید کے فلاحی کام کے لیے دیتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ 
یہ سب تمہاری جھوٹی خواہشات ہیں جب تم قلیل اشیاءکے ساتھ خود میں تبدیلی نہیں لا سکے تو خاک تمہارے پاس پیسے آنے کے بعد تبدیلی لاو گے ۔ جب تم مفت کا پانی چھت پر نہیں رکھ سکتے تو خاک مٹکے  بھربھر کے غریبوں کے گھروں میں دودھ پہنچائو گے ۔

تم نے کہاں فلاں تبدیلی نہیں لا سکا ۔ ارے! کھلاڑی تم ہو.  کپتان نااہل ہے  تو باقی کھلاڑیوں کو احساس ذمہ داری ہونی چاہیے جب تم میں احساس ہی نہیں ۔ تم نے خود کو  معاشرے میں ضم کیا ہوا ہے  ۔تو سنو!
 اس دیس کا مصادر انصاف بغیرت  ہے  ، کارتوسی بھکاہوا ، عوام بے ایمان اور  رہنما فکری  غلامی میں مبتلا ہیں ۔ لاکھ قانوں بناو لاکھ ان کو قید کرو ۔ تربیت اثر دکھاتی ہے ۔  تم اپنی ذات میں تبدیلی کیوں نہیں لاتے ؟ تمہاری انفرادی کوشش سے اجتماعی اصلاح  ممکن ہے وگرنہ جس ناؤ میں یہ مردہ اور بے حس قوم سوار ہے یہ ناؤ کبھی ساحل تک  نہیں پہنچا سکتی  کیونکہ جس راہ پہ نا خدا نے لگایا ہے اس راہ کا کوئی منزل ہی نہیں اور مسافر تو منزل کے منتظر ہے اور ناخدا تبدیلی نہیں چاہتا کیونکہ ساحل پر پہنچنے کے بعد ناخدا کاروبار بند ہو جائے گا ۔ آپ اگر تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو مسافروں کو جگاؤ!  بتاؤ!
 کہ نا خدا ہمیں منزل سے دور کر رہا ہے۔
 دیکھو  تبدیلی کیسے آتی ہے ؟؟؟؟

بشکریہ اردو کالمز