312

گوادر ایک شہر یا قلعہ

گوادر شہر کی کہانی بھی عجیب ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم گوادر کو دبئی بنائیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم گوادر کو ہانگ کانگ بنائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے آج تک کیا کیا ہے۔ہم نے گوادر میں بندرگاہ تو بنا لی ہے۔ چین کی حکومت گوادر میں پاکستان کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بھی بنا رہی ہے۔ امید ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ ایئرپورٹ کام شروع کر دے گا۔

جس سے گوادر بین الاقوامی طور پر پوری دنیا سے جڑ جائے گا۔ ویسے اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ گوادر کو صرف کراچی سے فلائٹ جاتی ہے وہ بھی ہفتہ میں صرف تین دن لاہور فیصل آباد پشاور اور کوئٹہ سے ابھی گوادر کا کوئی فضائی رابطہ نہیں ہے۔ زمینی رابطہ کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ اس لیے عملی طور پر گوادر جانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن ہم اس کو دبئی اور ہانگ کانگ بنانا چاہتے ہیں۔ گوادر میں بجلی نہیں ہے۔

براستہ تربت ایران سے بجلی آتی ہے۔ لیکن کبھی آتی ہے اور کبھی نہیں آتی ہے۔ چینی لوگ بھی حیران ہیں کہ ہم گوادر سے پاکستان کی قسمت بدلنے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن یہاں بجلی نہیں ہے۔ گوادر تک ٹرانسمیشن لائن نہیں بچھا سکے ہیں۔ اس کی اپنی قسمت مخدوش ہے وہ پاکستان کی قسمت کیا بدلے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ گوادر میں بیرونی سرمایہ کاری آئے۔ وہاں بڑی بڑی صنعتیں لگیں۔ ہم چاہتے ہیں سعودی عرب گوادر میں ایک ریفائنری لگا دے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بغیر بجلی کے کوئی بھی پلانٹ کیسے چلے گا۔گوادر کو اپنا بجلی کا پلانٹ چاہیے۔

ماہرین کی رائے یہی ہے کہ گوادر میں کوئلہ سے بجلی بنانے کا پلانٹ لگایا جائے۔ جو مستقبل میں گوادر کی بجلی کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ لیکن یہ بھی فوری ممکن نہیں۔ پاکستان نے گوادر کے لیے ایران سے براہ راست بجلی خریدنے کا ایک نیا معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان صرف گوادر کے لیے ایران سے ایک سو میگاواٹ بجلی خریدے گا۔ لیکن ایرانی سرحد سے یہ بجلی گوادر لانے کے لیے کوئی ٹرانسمیشن لائن موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہ بجلی بھی فوری نہیں آسکتی۔ ایران نے اپنی سرحد تک ٹرانسمیشن لائن بچھائی ہوئی ہے۔ پاکستان نے نہیں بچھائی ہوئی۔ اس لیے اس نئی ٹرانسمیشن لائن کے بچھنے میں کم از کم چھ ماہ درکار ہیں۔ اسی طرح گوادر میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہاں سمندری پانی کو صاف کرنے کا ایک پلانٹ لگنا ہے۔

تاکہ گوادر کی آبادی کو پانی مل سکے۔ لیکن ہم نے آج تک اس پلانٹ پر بھی کوئی کام شروع نہیں کیا۔ یہ منصوبہ بھی صرف کاغذوں میں ہی موجود ہے۔ بغیر پانی کے صنعتی شہر کیسے بنے گا۔ لوگ کیسے آئیں گے۔ چینی حکومت نے اپنی ضرورت کے لیے ایک چھوٹا پلانٹ لگایا ہے۔ جس سے وہ شہر کو بھی پانی دیتے ہیں۔ لیکن یہ بہت کم ہے۔ ایک بڑے پلانٹ کی ضرورت ہے۔چینی حکومت نے گوادر کے شہریوں کے لیے ایک اسپتال کا تحفہ دیا ہے۔ دو سال سے یہ اسپتال زیر تعمیر ہے۔ اور دو سال میں صرف چالیس فیصد کام مکمل ہوا ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اس اسپتال کی تعمیر کی ذمے دار ہے۔

چین کی حکومت تعاون کر رہی ہے۔ ڈیڑھ سو بیڈ کا یہ اسپتال گوادر کے شہریوں کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ چینی انجینئر بھی اس اسپتال کی تعمیر کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ وہ سست رفتار سے بہت تنگ ہیں۔ لیکن مجبور ہیں۔ ان کی کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ دو سال میں تو اس اسپتال کو کام کرنا شروع کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن یہ تو ابھی آدھا بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ یہ اسپتال چین کی طرف سے گوادر کی عوام کے لیے ایک تحفہ ہے۔ لیکن ہم شاید تحفہ لینے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ کب یہ اسپتال مکمل ہوگا۔ کب کام شروع کرے گا۔ اس کی تعمیر کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے چین درخواست کر رہا ہے۔

ہماری خواہش ہے کہ گوادر ایک بین الاقوامی شہر بن جائے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں آئیں۔ لیکن اس کے لیے ہماری کوئی تیاری نہیں ہے۔ گوادر اب ایک شہر نہیں ہے بلکہ ایک قلعہ ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر اس کو ایک قلعہ بنا دیا گیا ہے۔چیک پوسٹ کلچر نے شہر کا حسن خراب کر دیا ہے۔ چینی اپنی حدودسے باہر نہیں نکل سکتے اور کوئی پاکستانی ان تک نہیں آسکتا۔ ایسے بیرونی سرمایہ کاری کیسے آئے گی۔ جب تک ہم آزادانہ نقل وحمل کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ بین الا قوامی شہر کیسے بن سکتا۔ ابھی تو کوئی باہر سے آئے تو ہم سیکیورٹی کے نام پر اس کو اس قدر ڈرا دیتے ہیں کہ وہ شاید دوبارہ نہ ہی آئے۔

بشکریہ ایکسپرس