جھوٹ کا زوال

پرانی کہاوت ہے کہ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں دیکھے جاتے ہیں‘‘ جب کہ اس کہاوت کا ساتھ دینے میں دوسری کہاوت یوں ہے کہ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘‘ ان دونوں کہاوتوں کا یہ ایسا جوڑ ہے جو آج کل ہماری سیاست کی چیرہ دستیوں کو ببانگ دہل عوام کے سامنے نہ صرف لا رہا ہے بلکہ جہاں تک ممکن بن پا رہا ہے ، وقت کا سچ ، جھوٹ اور فریب کو سماج میں پرورش پانے کی مخالف جنگ میں جتا ہوا ہے۔

اس دلچسپ صورتحال میں اس وقت کا انتظار ہے جب یہ جھوٹ و فریب کی طاقتیں اپنے منطقی انجام کو پہنچیں ، مگر اس سے پہلے سوال یہ ہے کہ جھوٹ کا سہارا اور عوام کو دھوکے میں رکھنے کا طریقہ کیوں اور کس وجہ سے اپنایا جاتا ہے اور اس تمام فریب و مکر کے کاروبار سے جڑے عناصر آخر کار کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آیا کہ جھوٹ و فریب کا یہ بیانیہ کس حد تک قائم رہ پاتا ہے اور اس کی طبعی عمر تاریخ میں کیا ہوتی ہے ، جب کہ دوسری جانب کیونکر ’’سچ‘‘کی قوتیں صبر اور طویل دورانیے اور وقت کے انتظار کو ترجیح دیتی ہیں۔

 

جھوٹے بیانیے کی تاریخ ستر دہائیوں پر محیط ہے، باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس سماج میں مکر و فریب کے بیانیے کو طاقتور بنانے کے لیے تمام وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور فریب و جھوٹ کے بیانیے کو درسی کتابوں سے لے کر درسگاہوں کے انتظامی معاملات تک پھیلایا، بلکہ جھوٹ کی عمارت کی بنیاد میں قبضہ، دولت کے ناجائز ذرایع اور جرم کو شان اور عزت کا تمغہ عطا کیا۔

 

ستر برس کی ملکی تاریخ کے سماجی بگاڑ کی جھوٹ پر بنیاد رکھنے میں جنرل ایوب کجا بلکہ ریاستی ڈھانچے کے تمام ہرکاروں کی پشت پناہی اور عہدے ہی اس بنیاد پر نوازے گئے کہ وہ آمر کے لگائے ہوئے ’’جھوٹ کے پودے‘‘ کی آبیاری کریں اور اس جھوٹ کی کوکھ سے دیگر آمروں کو پیدا کریں۔

جب کہ دوسری جانب کبھی کسی سیاستدان کو گود لیں اور کبھی کسی سیاستدان کو جھولے جھلوائیں اور کبھی کسی سیاسی لیڈر کی بلائیں لیں اور ضرورت پڑنے پر جھوٹ میں مزید تڑکا لگانے میں کبھی کسی عالم کی مذہبی فکر تو کبھی کسی عالم کی فکر کے طالبان سماج کو پالنے میں جھوٹ کی ایسی آمیزش کریں کہ ہر سو ’’سچ‘‘ اور ’’حق‘‘کا گمان ہو۔

 

جنرل یحیی نے ملک کے مشرقی حصے میں عوام کی جمہوری جدوجہد اور حقوق مانگنے کے بر خلاف مشرقی پاکستانیوں کو ملک دشمن قرار دینے کی بنیاد ’’جھوٹ‘‘ پر رکھی اور مغربی پاکستان کے سیاسی و جمہوری حلقوں کو باضابطہ یہ باور کروایا کہ ’’مجیب‘‘ کے حقوق مانگنے کے چھ نکات دراصل مغربی پاکستان کی حکومت اور اقدامات کے خلاف ہیں ، جب کہ دوسری جانب اپنے من پسند صحافیوں کی پوری کھیپ کے ذریعے اخبارات و رسائل پر دباؤ کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں مجیب الرحمن کے چھ نکات کو ملکی سلامتی کے خلاف قرار دلوا کر ایک منصوبہ بند مہم چلائی ، بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ مشرقی حصے میں چھڑی جنگ کو اخبارات کے ذریعے فتوحات کی شکل میں عوام تک پہنچایا جاتا رہا اور پھر یہ ’’جھوٹ‘‘ اس وقت چاروں شانے چت ہو کر گر پڑا ، جب جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے گئے۔

جنرل ضیا کو ملک و قوم کی سلامتی کا مذہبی بخار چڑھا اور انھوں نے پورے ملک کو اپنی سیاسی جماعتوں کی مدد سے سیاسی و مذہبی تقسیم کا شکار کردیا ، اندازہ کیجیے کہ جو ملک ایک حصے کے الگ ہونے کے دکھ سے ہی نہ نکل پایا تھا۔

اسے انتہا پسندی کے جنون میں مبتلا کرکے لاک ڈاؤن اور احتجاجوں کی بلی پر چڑھا کر جیسی تیسی جمہوریت کو جھوٹ پر مبنی ملکی سلامتی کے بہانے 5 جولائی کو ختم کرکے اور اپنے جھوٹ کا سر بلند کرنے کے لیے غیر آئینی اقدام کرکے ملک کو پھر مارشل لا کی غیر جمہوری گلیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ، جب کہ جھوٹے سہارے کی مدد سے نوے روز کے انتخابات کا وعدہ گیارہ سال تک پورا نہ کیا جاسکا اور عوام انتخابات کا انتظار کرتے رہے،بالآخر سیاسی قوتوں کو میدان میں اترنا پڑا اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے جو قربانیاں دی تھیں اسے عوام تک منتقل کیا۔

جنرل ایوب خان کے دور میں سچ لکھنے کے صحافتی جان نثاروں پر تشدد اور ایذا رسانی کے تمام ریاستی حربے استعمال کیے گئے اور قلم کی حرمت پر مر مٹنے والے صحافیوں کو نہ صرف کوڑے مارے گئے بلکہ صحافتی ٹریڈ یونین کو ریاستی طاقت پر تقسیم کر کے من پسند صحافیوں کو نوازا گیا۔

جنھوں نے نہ صرف جنرل ضیا کی غیر آئینی جمہوریت کو ایمانداری کے سرٹیفیکیٹ دیے بلکہ عوام کی نظروں میں ’’ دہشت گردوں‘‘ کی انتہا پسند سوچ کی قبولیت کو ملکی سلامت کا اولین فرض قرار دلوایا۔

جنرل ضیا کے جھوٹے بیانیے نے سماج میں نفرت اور غداری کا بیانیہ بنا کر سماج کی تمام قدروں میں عدم برداشت کا بیج بویا ، مزید اسی بیانیے کی آبیاری کے لیے بعض سیاستدانوں کی ساری تربیت جھوٹ دھوکے اور پروپیگنڈے پر کی ، جس کی مدد کے لیے نام نہاد صحافیوں کا ایک ایسا گروہ بنایا ، جو آج بھی ہمارے اس سماج کی جمہوری اور صحافتی قدروں کو دریدہ کر رہے ہیں۔

قلم کی حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے ، ملکی صحافت غیر جانبدار نہیں رہی ہے ، بلکہ اکثر صحافی حضرات مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ترجمان بن گئے ہیں ، جن اعلیٰ صحافتی اقدارکی پاسداری کے لیے ملک کے صحافیوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، بے روزگاری کا عذاب جھیلا ، کوڑے کھائے ، اپنی جانیں قربانیں کیں۔ اس وقت نام نہاد بیانیے کے زیر اثر ان سب اعلیٰ اقدار کو روندے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، لیکن آج بھی حق و سچ کے علمبردار صحافی موجود ہیں ، جو اس شعبے کے بھرم اور وقارکو برقرار رکھنے کے لیے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں ، صحافت میں سچ کی روایت بہت پختہ ہے ، اس کی بنیادیں مستحکم ہیں ، جب تک حق وسچ کا ساتھ دینے والے اور قلم کی حرمت پر مرمٹنے والے صحافی موجود ہیں ، صحافت جیسے مقدس پیشے پر کوئی آنچ نہیں آسکتی ہے ، یہ سچ ہے اور جیت ہمیشہ حق وسچ کی ہی ہوتی ہے۔

دوسری جانب نام نہاد بیانیے کے علمبردار قانون کی رعایت کے مکمل مزے لوٹے رہے ہیں۔ یہ اس ریاست کا وہ دہرا رویہ ہے جو اب تک جھوٹے بیانیے کو تقویت دے کر اس سماج سے قانون ، انصاف ، رواداری جمہوری و آئینی حقوق کو پامال کرکے جھوٹے بیانیے کو اس سماج پر تھوپنا چاہتا ہے ، مگر شاید اب تک آمرانہ ذہن اس امر سے نا واقف ہے کہ جھوٹ کے بیانیے کا مقدر اب صرف زوال پذیری ہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ آج