185

ای او بی آئی پنشنرز کی وزیراعظم سے فریاد !

یہ حقیقت ہے کہ مزدوراور کسان دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔دنیا بھر میںتمام شعبہ ہائے زندگی مزدور کی مشقت، لگن اورمحنت کے بل بوتے پر چل رہے ہیں لیکن بڑھاپے میںمزدوروں کی اپنی زیست میںمشکلات کا ایک باب کھل جاتا ہے۔زندگی کی اس عمر میں جسم کمزور ہوجاتا ہے اور کام کرنا ان کے بس کا روگ نہیں رہتا لیکن زندگی کی گاڑی رواں دواں رکھنے کیلئے کھانا پینا لازمی ہے۔
 جس شخص نے اپنی عمر کا قیمتی حصہ ملک و ملت کی خدمت کی ہو ، اب بڑھاپے میں اس کی سیوا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ان کے مشکلات اور تکالیف میں کمی آسکے۔اس سلسلے میںقانون مجریہ1976کے تحت ایمپلایز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی)عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل (آپریشننر) کے زیرنگرانی کراچی اور لاہور میں مرکزی دفاتر ہیں،اس کے ماتحت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے دفاتر اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ہیں۔اس کے علاوہ اس ادارے کے ملک بھر میں 39علاقائی اور35ذیلی دفاتر ہیں۔ جولائی 1983ء سے ایمپلایز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی)نے باقاعدہ پنشن کا آغاز کیا جو ابتدا میںصرف 75روپے ماہانہ تھی ، بعد میں اس میں دھیرے دھیرے اضافہ ہوتاگیا۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جولائی1983ء تا جون1985ء 75روپے ماہانہ، جولائی1985ء تاجون1986ء 90 روپے،جولائی1986ء تاجون1987ء 306 روپے،جولائی1987ء تاجون1988ء  323 روپے،جولائی1988ء تاجون1989ء 349روپے ،جولائی1989ء تاجون 1990ء 374 روپے، جولائی1990ء تا جون 1991ئ400 روپے ماہانہ،جون1991ء تادسمبر1999ئ425 روپے، جنوری2000ء تااکتوبر2001ئ630 روپے، نومبر2001ء  تا دسمبر2004ء 700روپے،جنوری2005ء تاجون 2006ء ایک ہزار روپے ماہانہ،جولائی 2006ء تا جون 2007 ئ1300روپے ماہانہ ،جولائی 2007ء تاجون 2008ء 1500 روپے، جولائی2008ء تا جون 2010 دو ہزار روپے، جولائی 2010ء تا دسمبر2011ء  تین ہزارروپے، جنوری2012ء تا مارچ 2015ء 3600 روپے، اپریل2015ء تااگست 2018ء 5250  روپے ، ستمبر2018ء تادسمبر2019ء 6500 روپے ، جنوری 2020ء تا حال 8500 روپے ماہانہ ہے لیکن گذشتہ دو تین سالوں میں ظالمانہ اور جابرانہ مہنگائی کا اضافہ ہوا،اس مہنگائی میںغریب کے جسم اور روح کا رشتہ قائم کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اشرافیہ کو بجلی ، گیس ، پٹرول ،ٹیلی فون ، رہائش،سیکورٹی،علاج ،سفر سمیت ہر چیز عوام کے ٹیکسوں سے فری ہے،اس لئے ان کو مہنگائی کے کرب کا اندازہ نہیں ہے۔
"   محبت کو سمجھنا ہے تو ناصح خود محبت کر
کنارے سے کھبی اندازہ ِطوفان نہیں ہوتا"
ای او بی آئی پنشنرزاس دور میں سخت نالاں و پریشان ہیں۔اس مہنگائی نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔انھوں نے وزیراعظم سے التجاکی ہے جو من وعن پیش خدمت ہے۔" موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی گورنمنٹ  کے ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کیا گیا جو ایک ریلیف ہے مگروہ مزدورایمپلایز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے ماہوار رقم کاٹ کر ساٹھ سال کی اجیرن زندگی کے بعد ریٹائرڈ ہوتے ہیں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا۔ای او بی آئی کے پنشنرز اس بدترین مہنگائی کے دور میں نہایت مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔وزیراعظم صاحب سے مودبانہ گذارش ہے کہ بزرگ پنشنرز جنہوںنے زندگی بھر محنت سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں،اس قلیل پنشن ساڑھے آٹھ ہزار روپے میں گذارہ ناممکن ہے۔غریب مزدورعمررسیدہ طبقہ وزیراعظم کی طرف نہایت کسمپرسی کے حالات سے امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔وزیراعظم صاحب سے گذارش ہے کہ اس پنشن کو فوری طور پر کم ازکم فعل حال پندرہ ہزار روپے مقررکردیں جو کہ کچھ نہ کچھ ریلیف فراہم ہوجائے گا۔چونکہ اس رقم کی ادائیگی براہ راست مزدوروں کے اپنے فنڈ سے ہوتی ہے لہذا گورنمنٹ کے خزانے پر بوجھ نہیں بنتا۔امید ہے کہ وزیراعظم صاحب ان عمر رسیدہ غریب مزدوروںکی داد رسی کو یقینی بنائیں گے اور پنشن میں اضافہ کے احکامات جاری کردیں گے ۔یہ غریب عمر رسیدہ مزدور آپ کو دعائیں دیں گے ،جن میں بعض کی حالت اتنی قابل رحم ہے کہ پرورد گار عالم بھی ضرور ان کی دعاپر شرف قبولیت بخشیں گے۔اللہ پاک ملک پاکستان کو ہر میدان میں کامیابیاں عطا فرمائے اور ان غرباء مسکین مزدوروں کی داد رسی کرنے والوں کو اجر عظیم عطا فرمائے ،آمین۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مزدورکو اپنا حق مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کریں،یہی ریاست مدینہ کا طرہ امتیاز رہا،اللہ پاک نیک کام کرنے کی استطاعت عطا فرمائے۔ آمین " قارئین کرام! اس کالم کے وساطت سے وزیراعظم سے التماس ہے کہ گوکہ اس مہنگائی کی نسبت پندرہ ہزار روپے بہت کم ہے لیکن ای او بی آئی پنشن کم ازکم پندرہ ہزار روپے مقرر کی جائے تاکہ ان غریب مزدوروں کا بڑھاپے میں جسم اور روح کا رشتہ قائم رہے۔
                                      ٭٭٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بشکریہ اردو کالمز