130

سیلاب زدگان کی بحالی اور آبادکاری سوالیہ نشان۔

2010ء کے بعد ملک بھر سمیت آزادکشمیر میں بارشوں کے باعث سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی مگر عوام نے جن کو ووٹ دیے ا س مصیبت کی گھڑی میں تنہا چھوڑ کر فوٹو سیشن اور بیرون ملک دوروں اور پی ٹی آئی نے جلسے جلوسوں پر زور رکھا جبکہ کے پی کے میں جہاں بڑی تباہی ہوئی وہاں حکومت پی ٹی آئی کی تھی لوگ ہیلی کاپٹرز کی وجہ سے جہاں اس کی ضرورت تھی ، ریسکیو نہ ملنے کی وجہ سے موت کی وادی میں چلے گئے جبکہ سیلاب کی وجہ سے جو تباہی ہوئی اس سے سیلاب زدگان کی بحالی اور آبادکاری میں مزید دو سال لگ سکتے ہیں ، تاخیر کی وجہ سے اموات کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے جبکہ ملک بھر میں تقریباً9سو ارب سے زائد کا نقصان ہوا جبکہ تین کروڑ 30لاکھ سے زائد آبادکاری متاثر ہوئی 110اضلاع متاثر ہوئے ، صوبہ بلوچستان کے 34اضلاع میں ساڑھے 3لاکھ 60ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ، پنجاب میں 8اضلاع میں 4لاکھ 45ہزار سے زائد آبادی متاثرین میں شامل ہے ، خیبر پختونخواہ کے 33اضلاع میں سیلاب سے 50ہزار لوگ متاثر ہوئے جبکہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں 38اموات ہوئی جبکہ 6اور 10اضلاع کے تقریباً10ہزار افراد متاثر ہوئے 8سو کے قریب مکانات متاثر ہوئے جبکہ 14اگست سے 22اگست تک جاری ہے۔بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 27اضلاع میں تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے بلوچستان میں اب تک 196اموات ہوچکی ہیں جبکہ 18افراد زخمی جبکہ ساڑھے 21ہزار مکانات تباہ ہوئے ، 690کلومیٹر طویل ترین سڑکیں تباہ ، 18پل اور ایک لاکھ سے زائد مویشی متاثر ہوئے ، آزادکشمیر کے ایک کچے مکان کی چھت گرنے سے تقریباً10افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 4زخمی، یہ واقعہ ضلع پونچھ کے گائوں کھکڑیاں میں پیش آیا جبکہ آج سے بارشوں کا تباہ کن سلسلہ شروع ہونے والا ہے جس سے تباہی کے مزید امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں ، آزادکشمیر کے دیگر دریائوں میں طغیانی ، انڈیا سے پانی چھوڑنے اور بارشوں کی وجہ سے ہوئی جبکہ اب مسئلہ سیلاب زدگان کی آباد کاری ہے کیونکہ یہ 2010کے بعد سب سے بڑا سیلابی ریلا ہے جس کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ، صوبائی اور وفاقی حکومت آباد کاری اور امداد میں مکمل ناکام ہوچکی ہے اس وقت پھنسے ہوئے لوگوں کیلئے جہاں ہیلی کاپٹرز فراہم کئے جانے تھے وہاں وہ یہی ہیلی کاپٹرز اپنے جلسے جلوسوں میں استعمال کررہے ہیں جبکہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سیلاب زدگان کی آباد کاری میں 2سال مزید لگ سکتے ہیں ، اس وقت سیلاب زدگان کی مدد اور ریسکیو کرنے میں پاک فوج کا اہم رول ہے۔حسن اقبال کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جو ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی نشانی ہے۔ بدھ کے دن انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جن علاقوں میں پہلے کم بارش ہوتی تھی، اب وہاں زیادہ بارش ہو رہی ہے۔ بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے 27 اضلاع اور تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں اب تک ایک 196 اموات ہو چکی ہیں جبکہ 81 افراد زخمی ہوئے ہیں۔بلوچستان میں انفرا سٹرکچر کی بات کریں تو ساڑھے 21 ہزار مکانات، 690 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 18 پل اور ایک لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔دوسری جانب خیبر پختونخوا کے 9 اضلاع سیلاب سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئے جن میں اب تک بارشوں کی وجہ سے کئی سیلابی ریلے آئے۔خیبر پختونخوا میں 74 بچوں سمیت 132 موات ہو چکی ہیں جبکہ 148 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے میں مجموعی طور پر پچاس ہزار افراد متاثر ہوئے لیکن انفراسٹرکچر کی مد میں نقصان بلوچستان کی طرح نہیں ہوا۔ ساڑھے چھ کلومیڑ کی سڑکیں اور سات پل متاثر ہوئے جبکہ پانچ ہزار گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے۔سندھ میں 17 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، 66 بچوں سمیت 141 اموات ہوئی ہیں اور تقریباً پانچ سو افراد زخمی ہوئے۔ صوبے میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد اور 32 ہزار سے زیادہ مکانات متاثر ہوئے۔ انفراسٹرکچر کے نقصان کی بات کریں تو 33048 مکانات، اکیس سو کلومیٹر طویل سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، 45 پل اور 32 دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔پنجاب میں تین اضلاع میں 141 اموات ہوئیں اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد مجموعی طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے میں بارہ ہزار سے زیادہ مکانات، 33 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں جبکہ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سات پلوں کو نقصان پہنچا۔دوسری جانب گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر میں مجموعی طور پر 38 اموات ہوئیں جہاں بالترتیب چھ اور دس اضلاع کے تقریباً دس ہزار افراد متاثر ہوئے اور آٹھ سو کے قریب مکانات متاثر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ این ڈی ایم اے چیئرمین کے مطابق نقصانات کا یہ تخمینہ ابتدائی اطلاعات کی بنیاد پر لگایا گیا ہے جس کو حتمی نہیں کہا جا سکتا۔بلوچستان میں، جو اب تک پاکستان میں تمام صوبوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوا ہے، جانی اور مالی نقصانات کا سلسلہ تھما نہیں۔گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ضلع پشین کے مزید علاقے سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے جن میں برشور اور خانوزئی شامل ہیں۔
 

بشکریہ اردو کالمز