81

متاثرین سیلاب کا ردِعمل اور مستقبل کا منظرنامہ

سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کے مصائب و آلام کی دل دہلا دینے والی داستانیں سامنے آ رہی ہیں ۔ اس مرتبہ جتنی بڑی تباہی ہوئی ہے، اس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ لوگوں کی مکمل بحالی کےلئے بہت زیادہ وسائل درکار ہوں گے اور اس کام میں مہینوں نہیں بلکہ برسوں لگ سکتے ہیں لیکن اس عرصے میں کیا معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے ؟ اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا رہا۔

سوشل میڈیا پر روزانہ ایسی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں ، جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ امداد یا ہمدردی کے لئے پہنچنے والے سیاسی رہنماوں خصوصا وزراء ، ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کے خلاف لوگ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں ۔

یہ سیاسی رہنما لوگوں کے غم و غصے اور اشتعال سے بچنے کے لئے گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار حاصل کرتے ہیں ۔ یہ واقعات سندھ میں ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی رونما ہو رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، جن میں متاثرینِ سیلاب امدادی سامان لوٹ رہے ہیں۔ ایسے واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے معیشت، سماج اور سیاست پر کیا اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں ۔

پاکستان اس سیلاب سے پہلے ہی زبردست معاشی بحران کا شکار تھا۔ اس معاشی بحران کے کچھ اسباب جینیاتی ہیں اور کچھ قدرتی ہیں ۔ جینیاتی اسباب میں پاکستان کا سیکورٹی اسٹیٹ ہونا ، طفیلی اور مقروض معیشت اور حکمرانوں کی کرپشن اور نااہلی ہے جب کہ قدرتی اسباب میں زلزلے ، کورونا جیسی وبا ، بارشیں ، سیلاب ، گرمی اور دیگر موسمی اسباب ہیں۔

2010ء کا عشرہ ایسا ہے ، جب پاکستان میں معاشی بحران کے جینیاتی اسباب کے علاج کے امکانات ختم ہو گئے ۔ کورونا میں بھی بہت زیادہ معاشی نقصان ہوا اور اب بارشوں اور سیلاب سے جو نقصانات ہوئے ہیں ، اس نے 2010ء کے سیلاب کے ریکارڈبھی توڑ دیئے ہیں ۔

 ملکی معیشت کو جو مجموعی نقصان ہوا ہے ، وہ اپنی جگہ بہت بڑا نقصان ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ خاندانوں کا جو نقصان ہوا ہے ، اس کا فوری ازالہ نہ کیا گیا تو اس کے مزید خطرناک نتائج بھگتنا پڑیں گے ۔ اس وقت حکومتیں ، فلاحی اور خیراتی ادارے اور این جی اوز وغیرہ متاثرین کو خیمے ، خوراک ، دوائیں اور دیگر ضروری اشیاء پہنچانے کی حتی الوسع کوششیں کر رہی ہیں مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گا ۔

 متاثرین پھر بے یارومددگار ہوں گے ۔ انہیں اپنے گھر تعمیر کرنا ہیں ۔ ان کے مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور ان کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں ، جن پر ان کی معیشت کا انحصار اور گزر بسر تھی۔ متاثرین کی مکمل بحالی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ ہی اب اس کی منصوبہ بندی نظر آ رہی ہے ۔ ایسے لگ رہا ہے کہ 25یا 50 ہزار روپے فی خاندان دے کر حکومتیں بری الذمہ ہو جائیں گی اور پھر متاثرین کو پہلے کی طرح ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ اس معمولی امداد سے ( جو کسی کو ملے گی اور کسی کو نہیں ملے گی ) متاثرین نہ تو اپنے گھر دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی معیشت بحال کر سکتے ہیں ۔

 وہ مجبوراًکوئی دوسرا راستہ اختیار کریں گے ۔ وہ یا تو شہروں کی طرف ہجرت کریں گے ، جیسا کہ ماضی کی قدرتی آفات میں ہوتا رہا ہے یا پھر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے وہ کریں گے جو وہ نہیں کرنا چاہتے ۔ اس دوران متاثرین کئی بیماریوں کا شکار بھی ہو سکتے ہیں ، جو ان کے مصائب میں اضافہ کر سکتی ہیں ۔ اس صورتِ حال میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی سماجی ہیجان میں مزید شدت پیدا کر سکتی ہے ۔

جہاں تک سیاسی اثرات کا تعلق ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس سیلاب کے بعد سیاسی توازن ویسا نہیں رہے گا ، جو اس وقت ہے ۔ پنجاب اور سندھ میں سیاسی توازن بگڑنے کے حالات پیدا ہو رہے ہیں یا کئے جا رہے ہیں ۔

 سیاسی رہنماوں کے خلاف نعرے بازی متاثرین کا فوری اور فطری ردِعمل بھی ہو سکتا ہے اور کسی منصوبہ بندی کا حصہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے منصوبہ بندی کے تحت سیاسی مخالفین کو لوگوں میں گندا کرنے کا رحجان موجود ہے ۔ ہر دو صورت میں کچھ مخصوص قوتیں اپنی مرضی کے مطابق مستقبل کا سیاسی منظر نامہ بنانے کی کوشش کریں گی اور اس کے لئے حالات پیدا کریں گی ۔ خاص طور پر پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کا سیاسی اثر کم کرنے یا ان کی (Marginalization)کی کوششیں ابھی سے نظر آ رہی ہیں ۔

 اگر موجودہ سیاسی توازن بگڑا اور ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کو (Marginalized )کیا گیا تو اس کے بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ جن کا اندازہ شاید لوگوں کو ابھی نہیں ہو رہا ۔ پاکستان میں آئین اور نظامِ حکومت کی تبدیلی کی باتیں اب واضح طور پر ہو رہی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں سے ہی کرائی جا رہی ہیں ۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکز میں مخلوط حکومت ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں بھی حکومت ہے اور وہ وفاقی حکومت میں بھی بڑی حصہ دار ہے ۔ ان کے پاس بڑی سیاسی تنظیمیں بھی ہیں ۔ اب بھی موقع ہے کہ یہ دونوں جماعتیں سیلاب کے معاشی ، سماجی اور سیاسی اثرات سے نمٹ سکتی ہیں ۔ متاثرین کو تھوڑی امداد دے کر حکومتوں کے بری الذمہ ہونے کا روایتی طریقۂ کار اب ترک کرنا ہو گا ۔

 متاثرین کی مکمل بحالی کے لئے ہنگامی اور کثیر الجہتی منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔ اس مرتبہ حکومت کو بڑے پیمانے پر بین الاقوامی امداد بھی مل سکتی ہے جو با ربار نہیں ملے گی۔ اس امداد کو لوگوں پر ہی خرچ کیا جائے اور متاثرین کی بحالی منظم طریقے سے عمل میں لائی جائے ۔ ہر گائوں ، گوٹھ ، قصبے اور شہر کی بحالی کے الگ الگ منصوبے بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد کرایا جائے ۔

لوگوں کے گھروں کی تعمیر اور ان کی معیشت کی بحالی کے لئے تفصیلی ڈیٹا حاصل کیا جائے ۔ یہ بہترین موقع ہے معیشت کو سنبھالنے ، سماجی ہیجان اور سیاسی انتشار کو روکنے کا ، جس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم