92

جھوٹی خبریں شائع کرنے والوں کو کب سزا ملے گی؟

وطن عزیز میں کہنے کو تو اظہارِ رائے پر پابندیاں عائد ہیں، ہر دوسرا شخص یہی بات کہے گا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں کسی کو بھی فریڈم آف سپیچ کا حق حاصل نہیں۔ اظہار رائے پر قدغن تو ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، لیکن اس سب کے باوجود ہر طرف فیک نیوز پھیلانے کا عمل پورے زرو و شور سے جاری ہے۔ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا اپنی ریٹینگز بڑھانے کے چکر میں، اس کام میں سب سے آگے ہے۔

تو ایک خبر سن لیجئے، جو کہ اسی پرنٹ میڈیا کے ذریعے جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔ خبر یہ تھی کہ " راولپنڈی کے ایک سرکاری ہسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر کو انسانی خون پینے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا". یہ خبر ہر جگہ پھیلائی گئی ۔ ڈاکٹر صاحبہ کو بنا کسی تحقیق / انکوائری کے ،صرف ایک اخبار کی خبر پر نوکری سے نکال دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر اس خبر کے ٹکر چلے، ہر فیسبک و وٹس ایپ گروپ وہ خبر شئیر کی گئی، لوگوں نے اسٹیٹس پر یہ خبر لگائی۔ ہر فیسبوک پیج کے ایڈمن نے زیادہ لائکس کے چکر میں یہ خبر شئیر کی۔

جب بات زرا ٹھنڈی پڑی تو ہسپتال کی انتظامیہ نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی، اس نے سارے معاملے کی از سرنو تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ پوری خبر جعلی تھی، ڈاکٹر صاحبہ کا نفسیاتی معائنہ بھی کروایا گیا، جس میں ماہر نفسیات نے انہیں نارمل قرار دیا۔ اب اس انکوائری کمیٹی نے ڈاکٹر صاحبہ کو دوبارہ نوکری پر بحال کرنے کی سفارش کی ہے۔ 

اب اس واقعے پر غور کریں کہ کیسے ایک جھوٹی خبر نے ایک قابل ڈاکٹر کو نوکری سے نکلوایا، بلکہ انہیں نفسیاتی مریض بھی قرار دے دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کے والد بھی ڈاکٹر ہیں، وہ بھی اپنی بیٹی کو نا ڈیفینڈ کر سکے، ایک جھوٹی خبر نے ایک ڈاکٹر کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔

اس وقت پاکستان میں سب سے آسان کام دوسرے پر الزام تراشی ہے، عزت دار لوگوں پر ایسے ایسے گھٹیا الزام لگائے جاتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ کوئی ریٹنگ کی خاطر اتنا کیسے گر سکتا ہے؟ 

اگر ہم اس واقعہ پر نظر دوڑائیں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ہم تماش بین قوم ہیں، ہمیں سنسنی خیزی پسند ہے، ہمارے پاس جونسی بھی خبر لائی جائے، ہم بنا تحقیق کے اسے سچ مان لیتے ہیں اور اس خبر کو آگے بڑھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اگر وہ خبر جھوٹی نکل آئے تو مجال ہے کھبی ہمیں شرم آئے اور ہم معزرت کریں ۔ اوپر والے واقعہ میں بھی ایسا ہوا، ایک جھوٹی خبر کو بنا تحقیق کے سچ مان لیا گیا اور اسے آگے پھیلایا گیا، افسوناک ترین امر یہ ہے کہ اس کام میں پڑھے لکھے باشعور طبقے نے بھی بھرپور حصہ لیا، اب جبکہ خبر جھوٹی ثابت ہو چکی، کسی نے معزرت کرنے کی زحمت نہیں کی۔

زرا ایک لمحے کے لیے خود کو ان ڈاکٹر صاحبہ کی جگہ رکھ کر سوچیں، کہ اگر یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہوتا تو ہمیں کیسا محسوس ہوتا؟  کیسے ایک لمحے میں ایک عزت دار شخص کی عزت و احترام کو سرعام پامال کیا گیا، کیسے کیسے گھٹیا میمز بنائے اور شئیر کیے گئے، کیسے انکا مزاق اڑایا گیا، تو شاید ہمیں کچھ احساس ہو، لیکن آفرین ہو ان ڈاکٹر صاحبہ پر، جنہوں نے اس طوفان بدتمیزی کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور وہ سرخرو ہوئیں ۔

محکمہ صحت پنجاب کو چاہیے کہ سب سے پہلے اس ہسپتال کی انتظامیہ کو فی الفور معطل کرے، اور باقاعدہ انکوائری کروائے کہ کیسے ایک ڈاکٹر صاحبہ کو بنا کسی انکوائری کے، صرف ایک خبر پر نوکری سے برخاست کیا گیا۔ اگر ان پر الزام لگا تو پہلے انکوائری ہوتی پھر سزا دی جاتی، لیکن یہاں سزا پہلے دی گئی اور تحقیقات بعد میں کی گئی، جنہوں نے یہ مکروہ حرکت کی،انہیں کڑی سزا دی جائے ۔

آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS)  سے بھی میری درخواست ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں کہ کیسے ایک اخبار نے ایک ڈاکٹر صاحبہ پر اتنا بڑا الزام لگایا، کیا اس اخبار کا کوئی ایڈٹیوریل بورڈ نہیں؟  اگر تحقیقات میں اخبار انتظامیہ ملوث پائی گئی تو اس کی اشاعت پر فی الفور پابندی لگائی جائے ۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت فیک نیوز کے حوالے سے قانون سازی کی جائے، فیک نیوز چھپانے والے عناصر کو کڑی ترین سزا دی جائے تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔

جس چیز پر سب سے پہلے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے وہ ہے سرکاری ہسپتالوں میں میڈیا اور نام نہاد صحافیوں کے داخلے پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے ۔ لوکل صحافی اور اخبارت کے مالکان سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور عملے کو اپنے ناجائز کام کے لیے بلیک میل کرتے ہیں، پسندیدہ رپورٹ لکھوانے، mlc کٹوانے کے لیے، اپنے صحافی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اگر کوئی ڈاکٹر انکار کر دے، تو اسے بلیک میل کیا جاتا ہے، لوکل اخبارات پر انکی کردار کشی کی جاتی ہے، لوکل چینلز پر انکے خلاف میڈیا مہم چلائی جاتی ہے، چھوٹے شہروں میں ایسے واقعات اب روزمرہ کا معمول ہیں، اس طرف شدید توجہ درکار ہے۔

راولپنڈی کی ڈاکٹر صاحبہ جس زہنی ٹارچر سے گزری، یہ صرف وہی جانتی ہیں، لیکن اس واقعے نے ہماری اخلاقی و زہنی پسماندگی کو مزید آشکار کر دیا ہے کہ ہم صرف معاشی طور پر ہی بدحال نہیں، ہم اخلاقی طور پر بھی بدحالی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو چکے ہیں ۔

ڈاکٹر صاحبہ کو انکی نوکری پر بحال کرنے کے احکامات جاری ہو گئے ہیں، امید ہے وہ جلد ہی دوبارہ جانا شروع کر دیں گی، لیکن سوال وہی ہے کیا ان کے دکھ اور غم کا مداوا ممکن ہے؟  جس زہنی کرب سے وہ اور انکا خاندان گزرا، کیا اس کی خلاصی ممکن ہے، کیا فیک نیوز چھپانے اور اسے اگے شئیر کرنے والوں کو اپنے کیے پر زرا بھی ندامت ہے؟؟ تو اس کا جواب نفی میں ہو گا۔

جنہوں نے اس گھناونے عمل میں حصہ لیا، ان میں اتنی ہمت اور  طاقت نہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ سے معذرت کر سکیں ،کم از کم وہ سوشل میڈیا پر لگائی گئی اپنی پوسٹس ہی ڈیلیٹ کر دیں، لیکن شاید وہ یہ بھی نا کر سکیں۔

میں ڈاکٹر صاحبہ کے مستقبل و ترقی کے لیے دعاگو ہوں کہ وہ ہر میدان میں سرخرو ہوں، امیںن۔وہی اس جھوٹی خبر کے پیچھے تمام عناصر کو سخت سزا دی جائے، اسکے لیے بھی پر امید ہوں۔

 

بشکریہ اردو کالمز