110

شنگھائی تعاون تنظیم… سربراہی اجلاس

شنگھائی تعاون تنظیم کا بائیسواں دو روزہ سربراہی اجلاس جمعہ کے دن ازبکستان کے دارالحکومت سمرقند میں مشترکہ اعلامیہ جاری کر کے ختم ہو گیا۔

حالیہ اجلاس میں آٹھ ممبر ممالک روس، چین، بھارت، پاکستان، قزاقستان، تاجکستان،ازبکستان اور کرغزستان کے علاوہ کئی مبصر اور پارٹنر ممبر بھی شریک ہوئے۔ سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں رکن ممالک نے گرین ہاس گیسز کے اخراج میں کمی کے لیے پیرس معاہدے پر عمل درآمد پر زور دیتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی نتائج کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔رکن ممالک نے مقامی کرنسی میں باہمی تجارت بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔

 

اس تنظیم کی بنیاد1996میں پانچ ممالک روس،چین،قزاقستان قرغستان اور تاجکستان نے شنگھائی میں رکھی۔ اس وقت اس تنظیم کا نام ’’شنگھائی فائیو‘‘رکھا گیا۔سن 2001میں جب تاجکستان اس تنظیم کا رکن بنا تو اس کا نام شنگھائی تعاون تنظیم ( SCO) رکھ دیا گیا۔ابتدا میں پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم میں مبصر کا درجہ دیا گیا لیکن بعد میں 10 جولائی 2015 کو ان دونوں ممالک کو بھی باقاعدہ ممبر بنانے کا فیصلہ کیاگیا۔اس وقت اس تنظیم کے آٹھ باقاعدہ ممبر ہیں جب کہ چار ممالک افغانستان، ایران، بیلا روس اور منگولیا مبصر کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں۔ آرمینیا،اذربائیجان ،کمبوڈیا، نیپال، قطر، سعودی عرب، سری لنکا اور ترکی تنظیم کے ڈائیلاگ پارٹنر ہیں۔

 

اقتصادی، سیاسی اور فوجی تعاون کی اس تنظیم کے قیام کا اہم ترین مقصد امریکا برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے وسط ایشیا اور ملحقہ ممالک کے وسائل اور حکمرانی پر قبضے کی گریٹ گیم کی حکمت عملی کو ناکام بنانا ہے۔ کچھ مبصرین اس تنظیم کو نیٹو کا توڑ بھی قرار دیتے ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم بلا شبہ ایک موثر تنظیم ہے اور اس پلیٹ فارم پر تنظیم کے رکن ممالک کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے بھی آواز اٹھائی اور پیش رفت کی جا سکتی ہے اس لیے اس تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل کرنا پاکستان کی ضرورت تھی۔

شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشیا بیلٹ میں تبدیل ہوتی ہوئی ارضی سیاست میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ ان ممالک کی تاریخ، جغرافیہ ، ثقافت، مذہب اور ریاستی مفادات الگ الگ ہیں لیکن انھوں نے شنگھائی تنظیم اور برکس کے ذریعے عالمی اقتصادی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے علاوہ خطے کے اہم ممالک نے اپنا مالیاتی نظام مستحکم کرنے کے لیے برکس بینک بھی بنایا ہے۔ایس سی او اور برکس بینک اگر مستقبل قریب میں اپنے مقاصل حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھتے رہے تو امریکا اور یورپ کی اقتصادی جارحیت کا اس خطے سے خاتمہ ہو جائے گا۔

شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس بینک کے قیام نے عالمی مالیاتی اداروں، مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کی مالیاتی بالا دستی کو چیلنج کردیا ہے۔ برکس کے رکن ممالک کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے۔ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کا پچیس فیصد ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک جن کا ایمان توحید پر اور معیشت کی بنیاد ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود پر ہے، وہ کب خواب غفلت سے جاگیں گے۔

ہمارے دین نے تو غریب، نادار اور ضروت مندوں کے لیے اپنی ذاتی کمائی میں سے اڑھائی فیصد مختص کرنے کا حکم دیا ہے۔ عرب ممالک اگر تیل اور سونے کی دولت سے مالا مال ہیں تو دوسرے مسلم ممالک کے پاس قدرت نے کئی اہم معدنیات اور ایسے قدرتی وسائل دیے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک انھیںللچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں۔پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے، وہ دنیا کے کم ہی ممالک کو حاصل ہے، پھر ہم کیوں مغربی ممالک کے دست و نگر اور خوف ذدہ ہیں، اہم بین الاقومی معاملات پر بھی مسلم امہ کویک زبان نہیں کر سکے۔

عرب ممالک کی اکثریت اسلامی یک جہتی کے بجائے عرب قومیت کا پرچار کرتی ہے۔ یہ ممالک فلسطین کے معاملے میں زبانی بیان بازی تو کمال کی کرتے ہیں۔لیکن اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں انھی ممالک کی آشیرباد سے بناتے ہیں، جو فلسطین کو اسرائیل کے زیر نگیں رکھنا چاہتے ہیں ۔ کشمیری اور میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار کے معاملے پر عرب ممالک نے چپ کیوں سادھ رکھی ہے۔مسلم امہ کا اتحاد او ر’’ نیل سے لے کر تابخاک کاشغر ‘‘کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہو گا جب او آئی سی اور دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران برکس کی طرز پر ایک اسلامک بینک بنانے پر آمادہ ہو ں گے۔

ورلڈ بینک اور برکس دونوں جو بھی قرضے دیں گے وہ یقینا سود کی بنیاد پر ہوں گے۔ ملت اسلامیہ کا نظریہ تو سودی کاروبار کے خلاف ہے پھر ہم اس جانب کیوں توجہ نہیں دیتے۔ سعودی عرب ، قطر ، کویت، برونائی دار السلام، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور پاکستان کیوں ایسے اسلامی بینک کی بنیاد نہیںرکھ سکتے ہیں جو ورلڈ بینک اور برکس کے متبادل کے طور پرملت اسلامیہ کے ممالک میں معاشی انقلاب کا سبب ہو۔اس بارے میں ملائیشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے جو تجاویز تیار کی تھیں اگر ہمارے ماہر اقتصادیات ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرلیں تو یقینا آگے بڑھنے کی راہیںنکل سکتی ہیں۔

بشکریہ ایکسپرس