67

سیلابی پانی اترنے کے بعد کا سیاسی منظر نامہ

حالیہ سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتریں ۔ سوشل میڈیا کے ذریعےمتاثرین کی درد ناک کہانیاں سامنے آ رہی ہیں اور ان کے غم و غصے کا بھی پتہ چل رہا ہے ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بعض حلقے یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ سیلاب کا پانی اترنے کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ بدلا ہوا ہو گا ۔ اس حوالے سے سابقہ مشرقی پاکستان ،موجودہ بنگلہ دیش کا حوالہ دیا جاتا ہے،کہا جاتا ہے کہ وہاں بھی زبردست اور تباہ کن سیلاب کے بعد بھی حکومت متاثرین کی امداد اور بحالی کے حوالے سے لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتری تھی اور لوگوں نے ردعمل میں 1970ء کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کا ساتھ دیا تھا ۔ سیلاب کا پانی اترتے ہی مشرقی پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا تھا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آج ہمارے پاکستان اور اس وقت کے مشرقی پاکستان کے حالات میں بہت فرق ہے ۔ وہاں سیاسی تحریک بہت مضبوط تھی ۔ عوامی لیگ بہت پہلے سے ایک مقبول سیاسی جماعت تھی ۔ بنگال کے عوام کی سیاست صحیح رخ پر تھی۔ عوامی لیگ کی تشکیل قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد 23جون 1949 ء کو عمل میں آئی ۔ بنگالی مسلم لیگی رہنماوں نے پاکستان مسلم لیگ سے اپنا دھڑا بنایا تھا اور اس کا نام پاکستان عوامی مسلم لیگ رکھا تھا کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے کہ سیاست اور وسائل پر مغربی پاکستان کے لوگوں کی اجارہ داری ہے ۔ بعد ازاں عوامی مسلم لیگ کو صرف عوامی لیگ بنا دیا گیا ۔ بنگال کے لوگوں کی قومی جمہوری سوچ زیادہ مضبوط تھی ۔ وہاں پانی کے سیلاب سے پہلے سیاسی سیلاب آ چکا تھا۔

ہمارے ہاں صورت حال اس کے برعکس ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ دو عشروں سے حقیقی قومی اور عوامی جمہوری قوتیں کمزور ہوئی ہیں ۔ پاکستانی معاشرے کو بہت حد تک غیر سیاسی بنا دیا گیا ہے اور یہاں انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا گیاہے ۔ سیلاب کاپانی اترنے کے بعد میں سیاسی منظر نامے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھ رہا لیکن ایسی تبدیلی ہو ضرور سکتی ہے جو موجودہ سیاسی توازن کو کسی حد تک بگاڑ دے ۔ عوامی لیگ کی طرح کوئی ملک گیر سیاسی جماعت ابھرتی نظر نہیںآ رہی اور نہ ہی سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قوم پرست جماعتوں کی غیر معمولی مقبولیت کے حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں ۔ سیلاب میں متاثرین کی امداد کےلئے سب سے زیادہ کام این جی اور اور مذہبی جماعتوں نے کیا ہے۔ کچھ این جی اوز ایسی ہیں ، جن کے سیاسی مقاصد بالکل نہیں ہیں جبکہ کچھ این جی اوز کو مذہبی جماعتیں چلا رہی ہیں ، ان کے سیاسی مقاصد ہیں ۔ مذہبی جماعتیں خود بھی سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اپنے ناموں سے کام کر رہی ہیں ۔ میںنئے سیاسی منظر نامے میں ان مذہبی جماعتوں کے سیاسی اثر و رسوخ میں زیادہ اضافہ دیکھ رہا ہوں ۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کےلئے نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے ) کے نام سے ایک حکومتی ادارہ موجودہ ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امدادی سرگرمیوں میں شامل تمام سرکاری اور نجی اداروں اور تنظیموں کو پابند کیا جاتا کہ وہ این ڈی ایم اے کے ذریعے کام کریں ۔ صوبائی سطح پر ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز ( پی ڈی ایم ایز ) ہیں ۔ امدادی اشیا اور رقوم کا این ڈی ایم اے میں ایک مرکزی ریکارڈ ہوتا اور وہاں سے تقسیم کا طریقہ کار وضع کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ این جی اوز اور مذہبی جماعتوں کے وسائل اور افرادی قوت کو مربوط طریقے سے استعمال کیا جاتا تو بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے ۔ اس وقت جو صورت حال ہے ، اس میں حکومتیں ناکام نظر آتی ہیں ۔ این جی اوز اور مذہبی جماعتیں لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہی ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مخیر لوگوں کا اعتماد ان مذہبی جماعتوں اور این جی اوز پر ہے کیونکہ وہ ان کاموں کو ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔ حکومتیں چاہے کسی کی بھی ہوں ، ان پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہے ۔ این جی اوز اور مذہبی جماعتوں کو ملنے والے فنڈز کی مانیٹرنگ بھی نہیں رہی ۔ یہ فنڈز کہاں سے آ رہے ہیں اور کیسے خرچ ہو رہے ہیں ؟ ہر ملک میںاس حوالے سے مانیٹرنگ ہوتی ہے ۔ یہ مانیٹرنگ فلاحی اور خیراتی اداروں کی بھی ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں اس طرح کی مانیٹرنگ نہ ہونے کے غیر متوقع نتائج رونما ہو سکتے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لوگوں کی امداد اور بحالی کی سرگرمیوں کو شفاف اور بہتر بنائیں اور متاثرین کو یہ محسوس کرائیں کہ حکومتیں ان کے ساتھ ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بیرونی امداد بھی ملنا شروع ہو گئی ہے ۔ وسائل کی کمی نہیں ہے صرف منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متاثرین کی امداد اور بحالی کے کاموں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔ اتنی بڑی آبادی مصائب اور تکالیف کے ساتھ زیادہ دیر گزارا نہیں کر سکتی ۔ اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا بھی سیلاب آ رہا ہے ، جو پانی کےسیلاب کے متاثرین کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی ڈبو رہا ہے ۔ سیاسی بے چینی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ حکومتوں کی کارکردگی اسی طرح ناقص رہی تو پھر ووٹ حاصل کرنے والی موجودہ سیاسی جماعتوں کا بہت سارا ووٹ بینک مذہبی جماعتوں کے پاس جا سکتا ہے ۔ سیلاب کا پانی خشک ہونے کے بعد یہ سیاسی منظر نامہ ہو سکتا ہے ، پڑوسی ملک افغانستان میں حکمراں طالبان کو اپنے سے زیادہ سخت گیر داعش کے لوگوں سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتیں حالات کا درست ادراک نہیں کر ر ہیں ۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم