موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسی؟

یہ امر نہایت خوش آئند سہی کہ خیبرپختونخوا حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسی کی منظوری دیتے ہوئے اس پر موثر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ موثر عملدرآمد کیسے ہوگا؟ واضح رہے کہ ملک میں ایک عرصہ سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی وزارت بھی قائم ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یعنی ہریالی کی کمی کو پورا کرنے اور جنگلات کا رقبہ بڑھانے کی غرض سے کئی مہمات بھی چلائی گئیں جن کے نتائج اور حساب کتاب کا ابھی انتظار ہے کہنے کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ محض پیسہ سب کچھ نہیں بلکہ انسان اور حیوان دونوں کی زندگی‘ نشوونما اور تحفظ کیلئے وہ ماحول چاہئے جو قدرت نے انہیں عطا کیا تھا اگر اپنے اردگرد دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ مخلوق خدا کی زندگی اور بودوباش کیلئے ناگزیر ماحول کہیں نظر آرہا ہے یا ہمارے ہاتھوں نابود اور معدوم ہوچکا ہے؟ پالیسی پر عملدرآمد میں تو اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جائیگا کہ بے ہنگم آبادی کے سبب شہروں اور دیہات کے درمیان  فرق اپنی جگہ برقرار رہیگا یا پھر سے قائم کیا جائیگا؟ شہروں اور مضافات میں چلنے والی گاڑیوں میں ہزاروں کی تعداد میں ان فٹ یعنی ناقابل استعمال گاڑیوں کو گراؤنڈ کرکے سکریپ کیا جائیگا یا ماحول کو تباہی سے ہمکنار کرنیکا یہ سلسلہ جاری رہیگا؟ اگر حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھایا تو ممکن ہے ایسی تمام گاڑیاں جوگزشتہ نصف صدی سے چل رہی ہیں اور کسی لحاظ سے بھی قابل استعمال نہیں‘ تمام تر ایکا کرکے یونیورسٹی کیمپس منتقل ہو جائیں کیونکہ وہاں پر ایسی گاڑیوں کیلئے کوئی قاعدہ قانون اور روک ٹوک کا نظام  نہیں ایک زمانہ تھا کہ جب بندوبستی علاقے میں کوئی جرم کر بیٹھتا اور فرار کا موقع ملتا تو قریب ہی کسی قبائلی علاقے میں جاکر مفرور ہوجاتاآج کل یہی حالت شہر اور پشاور یونیورسٹی کیمپس کی بھی ہے یعنی ان گاڑیوں اور رکشوں پر شہر میں پابندی ہے‘ یہ چند ٹکوں کے عوض یونیورسٹی سے انٹری اور سروس پاس لیکر نہایت دھڑلے سے چل رہی ہیں بہرکیف یہ تو خیبرپختونخوا کی بہت بڑی خوش نصیبی ہوگی کہ حکومت اپنی پالیسی پر عملدرآمد میں کامیاب ہو اور بے ہنگم آبادی اور بلاضرورت ناقابل استعمال ٹرانسپورٹ کی روک تھام یقینی ہونے کیساتھ کھیت کھلیان اور ہریالی بحال ہو جائے بلکہ جنگلات کے رقبے میں ناگزیر اضافہ بھی ہو سکے جسکے بغیر ہمارا  اجتماعی انجام مستقبل میں بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران ہوا یہ بات بھی بہتری سے خالی نہیں ہو گی کہ اگر حکومت کے متعلقہ ادارے یونیورسٹی کیمپس کے روز افزوں برباد ہونے والے ماحول کا نوٹس لے لیں اور پشاور کے اس حسین و منفرد خطے کو مزید متاثر ہونے سے بچالیں کیونکہ مشاہدہ یہ ہے کہ جامعات کی انتظامیہ اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام نظر آ رہی ہے اسکا خیال شاید یہ ہو کہ یونیورسٹی چلانے کیلئے محض پیسہ چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ محض پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا بلکہ یونیورسٹی میں ایک بہتر تعلیمی اور ماحول دوست فضا کی ضرورت ہوتی ہے یہ تب ممکن ہے جب تعلیمی فضا اور قدرتی ماحول کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرکے اس کیلئے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد ناگزیر قرار دیا جائے بصورت ملک بھر خیبر پختونخوا اور وادی پشاور کی طرح یونیورسٹی کیمپس کے ماحول کابھی خداہی نگہبان ہو۔

 

بشکریہ روزنامہ آج