116

خود کب کچھ کریں گے

پورے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی "وجہ" سے پیدا ہونے والی "صورتحال" کیا قدرتی آفت/ موسمیاتی تبدیلی/ NDMA اور PDMA کی ناقص کارکردگی/ Climate Change یا ماحولیات کی وزارت کی عدم دلچسپی / صوبائی حکومتوں کی بد انتظامی کی بدولت ہے؟ صرف قدرت اور موسمیاتی تبدیلیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا جاسکتا۔ یقینا حکومتی اداروں کی غلط پالیسیاں، عوام کی طرف سے public properties کا غلط استعمال، اور سب (عوام اور خواص) کا ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر فوقیت دینا، نتیجتاً موجودہ صورتحال کا سامنا۔اب جو ہو گیا سو گیا، کس کا کتنا قصور ، کون ذمہ دار، اس پر بات کرتے رہیں اور نتائج اخذ کرتے رہیں۔ لیکن فل فور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ جہاں متاثرین سیلاب کی آبادکاری کے لئے دنیا بھر سے امداد (بھیگ اس لئے نہیں کہ عالمی برادری امداد کے نام پر قرضے کی بات کررہی ہے بھلے سے شرائط نرم ہی کیوں نہ ہوں ہے تو قرض ہی) طلب کر رہی ہے اور جو امداد مل چکی ہے اسے ناکافی قرار دے رہی ہے، خود حکومت سوائے ہیلی کاپٹروں پہ گھومنے، فضائی جائزہ لینے اور امداد مانگنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی، چاہے مرکزی ہو یا صوبائی۔ ایسے وقت میں جب ایک فیصد کے قریب( تین کروڑ متاثرین اور 23کروڑ پوری آبادی) عوام سیلاب سے براہ راست متاثر ہیں اور بالواسطہ متاثرین کا درست تعین کچھ عرصے بعد ہی ہوگا، حکمران طبقے کو بھی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیں۔ہم دنیا بھر سے امداد کے طلبگار ہیں لیکن خود اپنے اخراجات میں کمی کرنے کو تیار نہیں۔ وزیر اعظم صاحب یو این او میں خطاب کرنے گئے اور سارے ہمنوا ساتھ لے گئے۔ جن کے جائے بغیر بھی کام چل سکتا تھا، لیکن سرکاری خزانے کو درخت پہ لگے پتے سمجھا جاتا ہے کہ جب دل چاہے توڑ لیں پھر نکل آئیں گے۔ ملک سے باہر جتنے لوگ بھی سرکاری خرچ پر جاتے ہیں ان کا سارا خرچہ ٹیکس کی آمدنی سے کیا جاتا ہے اور روپے کو پھر ڈالر میں تبدیل کرکے ڈالر کی قدر بڑھائی جاتی ہے، کیوں کہ جتنا ڈالر خریدا جائے گا اتنی اس کی مانگ میں اضافہ ہوگا رسد اور اور طلب کا توازن بگڑے گا نتیجتاً قیمت میں اضافہ ہوگا۔ جب ملک میں سب لوگ روپے کی بے قدری اور مہنگائی سے بری طرح متاثر ہیں، صرف گھومنے (outing) کے لئے معیشت اور خزانے پہ بوجھ ڈالنا ضروری تھا۔ بچت austerity کے اصول کو کب اپنایا جائے گا؟ ایک وزیر اعلٰی متاثرین سیلاب کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں ساتھ میں گاڑیوں کا سیلاب لے جاتے ہیں۔ کیا ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر تمام ضروری لوگوں کے ساتھ دورہ نہیں کیا جاسکتا ہے؟ سرکاری گاڑیوں اور سرکاری (مفت کے) پٹرول کو ضائع کرنا ضروری ہے؟ ہر بڑی شخصیت یہی کام کررہی ہے۔ کیا اندازہ نہیں ہے کہ یہ وقت تشہیر کا نہیں بلکہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا ہے۔ عجیب بے حسی کا عالم ہے کہ اگر کوئی ہمدردی کے اظہار کے لئے بیرونی ممالک سے امدادی سامان لے کر آ جائے تو "ہمارے بڑوں" کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ اب اس celebrity کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔ سب "بڑے" اپنے ذمہ کے سارے کام( جن کے کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں) چھوڑ کر ایک مصافحہ اور تصویر کھنچوانے کے لئے گھنٹوں اس celebrity کو اپنی پہچان کروانے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ بیرونی شخصیت حیران و پریشان ان "بڑوں" کی حرکتیں نوٹ کرتا رہتا ہے کہ یہ ملک اتنی مشکل میں ہے لیکن ان لوگوں میرے اعزاز میں اتنے پیسے خرچ کرکے دعوتیں کرنے کی پڑی ہے۔ ہر کوئی مجھ سے ملنے کے لئے وقت مانگ رہا ہے جب کہ مجھے صرف متاثرین سے ملنا ہے۔ ذرا سوچیں ہمارے بارے میں کتنا منفی تاثر قائم ہورہا ہے۔ خدارا صرف اپنے بارے میں نہیں ملک کا سوچیں، بیرونی ممالک سے امداد آنے پر خوش ہونے کی بجائے اپنے اخراجات میں کمی کریں اور خزانے پہ پڑنے والے بوجھ کو کم کریں۔ کچھ کر کے دیکھائیں ناکہ باعث شرمندگی اور زحمت نہ بنیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم