127

حقیقت کشا تحریری شہادت

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی پکار پر لاہور میں پورے ہندوستان سے 56؍افراد جمع ہوئے جنہوں نے 1941ء میں جماعتِ اسلامی کی بنیاد رَکھی۔ آگے چل کر معاشرے کی آلائشوں سے محفوظ رہنے کے لیے پٹھان کوٹ کے ایک دور دَراز علاقے میں ایک بستی آباد کی گئی جس کا نام داراِلاسلام رکھا گیا۔ یہاں مولانا سے پہلے ’’شاہراۂ مکّہ‘‘ کے مصنّف علامہ محمد اسد اپنی عرب نژاد بیگم منیرہ بنتِ حسین اور نوعمر بیٹے بلال کے ہمراہ تشریف لائے تھے اور اُن کے درمیان عقیدت و احترام کا رشتہ مضبوط ہوا تھا۔ پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور کی ایک تحصیل تھی جسے مسلم اکثریتی ضلع کے طور پر پاکستان کے حصّے میں آنا تھا، مگر ریڈکلف ایوارڈ میں رَدوبدل کے باعث وہ اِنڈیا کے حوالے کر دیا گیا۔ تب دارالاسلام کی بستی میں رہنے والوں کو بحفاظت پاکستان لانے کے لیے علامہ محمد اسد ،جو ہندوستان میںپندرہ سال سے مقیم تھے اور مسلم لیگی قیادت سے اچھے تعلقات استوار کر چکے تھے، نے اپنے اثرورسوخ سے بسیں بھیجی تھیں۔ اِس طرح مولانا مودودی لاہور منتقل ہوئے اور متعدد تجربات سے گزرنے کے بعد ذیلدار پارک اچھرہ میں کوٹھی کرائے پر لے کر رہنے کا ٹھکانہ بنایا۔ اُسی میں جماعتِ اسلامی پاکستان کا دفتر قائم ہوا۔ ترجمان القرآن کی اشاعت بند ہو گئی تھی، کیونکہ پاکستان سے ڈکلیئریشن لینے میں آٹھ دس ماہ لگے تھے۔

وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کی غفلت اور بدنیتی سے فرقہ وارانہ فسادات میں دس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے اور 65 لاکھ مہاجر نہایت بری حالت میں پاکستان میں داخل ہوئے۔ مولانا نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور ہمدردوں کو مہاجرین کی خدمت پر مامور کر دیا۔ وہ پوری تن دہی سے مہاجرین کے دکھ درد دور کرنے میں جُت گئے۔ اُسی زمانے میں اسلامی نظام کا چرچا بھی ہونے لگا تھا اور حکومت کی استدعا پر سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظام کے مختلف پہلوؤں پر پانچ تقریریں کی تھیں جن سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مولانا نے اسلامی قانون کے نفاذ پر پنجاب یونیورسٹی کےلاکالج میں بھی لیکچر دیے اور اِسلامی دستور کی اہمیت پوری طرح واضح کی۔ جماعتِ اسلامی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے بعض حکمران طبقے مخاصمت پر اتر آئے اور جماعتِ اسلامی اور مسلم لیگ میں غلط فہمیاں پھیلانے کی مہم چلانے لگے۔ جون 1948ء سے ماہنامہ ترجمان القرآن شائع ہونے لگا جس میں قائدِاعظم کی وفات پر اکتوبر 1948ء میں مولانا نے ’’اشارات‘‘ میں قائدِعظم کی عظمت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ ہم یہاں اُن کے ’’اشارات‘‘ میں سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جو تاریخ کی گواہی کی حیثیت رکھتے ہیں:

’’پہلا حادثہ بانیِ پاکستان مسٹر محمد علی جناح مرحوم کی وفات کا ہے۔ اُن کی شخصیت پچھلے دس بارہ سال سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا مرکزومحور بنی ہوئی تھی۔ ساری قوم اُن پر مجتمع تھی۔ اُن کی راہنمائی پر سب کو بھروسہ تھا۔ انہی کے ذاتی اثرورسوخ نے مختلف عناصر کو جوڑ کر مسلمانوں کو ایک متحد قوم بنایا تھا۔ انہی کے اعتماد پر قوم نے اپنی پوری طاقت اِس جدوجہد میں لگا دی تھی جس کے نتیجے میں آخرکار پاکستان قائم ہوا اَور قیامِ پاکستان کے بعد اِس نئی مملکت کی عمارت جس مضبوط ستون کے سہارے پر تعمیر ہو رَہی تھی وہ بھی اُنہی کی جامع اور معتمد علیہ شخصیت تھی۔ اُن کے بعد کوئی دوسرا شخص، بلکہ کوئی پورا گروہ بھی ہمارے درمیان ایسا موجود نہیں ہے جس سے لوگوں کو محبت ہو، جس کی آواز پر تمام قوتیں حرکت میں آ جائیں اور جس کی مقناطیسی کشش ہمارے شیرازۂ قومی کے مائل بہ انتشار اَجزاء کو باہم پیوستہ رکھ سکے۔ صرف ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک کے باہر بھی پاکستان کی جو کچھ ساکھ اور دَھاک تھی، وہ زیادہ تر اُسی آزمودہ کار مدبر کی بدولت تھی۔ کوئی دوسری شخصیت ہمارے ہاں ایسی نہیں ہے کہ اُس کے وقار اَور تدبر کو بین الاقوامی برادری میں اِس درجہ بھروسے اور اِعتبار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ دنیا کے لیے تو مرحوم کی وفات محض ایک بڑے انسان اور مشہور رَاہنما کی رحلت ہی ہے، مگر ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑی قومی مصیبت ہے، کیونکہ اِس سے ہماری نوخیز مملکت کی طاقت اور ہماری قومی زندگی کو ایسا صدمہ پہنچا ہے جس کی تلافی مشکل نظر آتی ہے، اِلّا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے اور ہماری مدد کرے۔‘‘

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی آگے چل کر ایک اہم سوال اٹھاتے اور اُس کا جواب بھی فراہم کرتے ہیں:

’’قائدِاعظم کی وفات کے بعد ہمارے لیے اب یہ سوال پہلے سے بھی بدرجہا زیادہ اَہم ہو گیا ہے کہ آیا ہم کوئی ایسا مرکزی تخیل رکھتے ہیں جو ہمارے مختلف عناصر کے احزابی تخیلات پر غالب آ گیا ہو اَور اُن سب کو اَپنی مقناطیسیت سے جوڑ کر ایک وحدت بنا سکتا ہو؟ آیا ہم کوئی ایسا اجتماعی مقصد رکھتے ہیں جو افراد اَور قبائل اور خاندانوں اور طبقوں کے جداگانہ مقاصد کو کھا جائے اور یہ سب اِس ایک بڑے مقصد کی خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیں؟ آیا ہم کچھ ایسی قدریں رکھتے ہیں جن کی طلب اور لگن ہمارے بچے بچے کے دل میں پیدا ہو چکی ہو اَور وُہ اُن کے حفظ و بقا اور ارتقا کو اَپنے نفس اور اُس کی دلچسپیوں اور خواہشوں سے عزیزتر سمجھتا ہو؟ آیا ہم کچھ ایسے اصول رکھتے ہیں جن کے اتباع سے ہم اپنی حیاتِ قومی کو عدل و اِنصاف، تعاون و تناصر، امن و اطمینان اور ترقی و تقدم کی پائیدار بنیادوں پر قائم کر سکیں اور اُن اسباب کو مٹا سکیں جو ہمارے عناصرِ وجود کو آپس ہی کی کشمکش میں مبتلا کر دینے والے ہیں؟’’یہ چیزیں اگر ہمارے پاس موجود ہیں، تو ہمیں مطمئن رہنا چاہیے کہ پاکستان مستحکم ہے، محفوظ ہے اور بقاواِرتقا کی پوری طاقت رکھتا ہے۔ لیکن اگر دیانتاً ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اِن چیزوں کا ہمارے اندر فقدان ہے، یا کم از کم اِس حد تک قلت ہے کہ اُن کی موجودگی سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا، تو پھر ہمیں سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہونی چاہیے کہ اُنہیں پیدا کریں اور نشوونما دیں۔‘‘

بشکریہ جنگ نیوزکالم