کاش کا لفظ میرے ساتھ جڑا رہتا ہے

ستمبر سے اگرچہ سردی کا آغاز ہوجاتا ہے لیکن بھرپور گرمیوں کا موسم گزارنے کے بعد کینیڈا میں ستمبر سکول کھل جانے کا اہم ترین مہینہ ہوتا ہے نئے سال کا آغاز‘ جس میں تعلیم کی سرگرمیاں نئی کلاسز کے ساتھ شروع ہو جاتی ہیں‘ تمام شاپنگ سٹورز‘ سکول بیگز‘ نئے نت ڈیزائنوں کے شوز اور خوبصورت  بچوں کے کپڑوں سے سج جاتے ہیں‘ کینیڈا کے سکولوں میں یونیفارم کا کوئی تصور نہیں ہے‘ نہ ہی کتابیں خریدنے کا‘ نہ سٹیشنری خریدنے کی ماں باپ کو فکر ہوتی ہے۔ طالب علموں کی ضرورت کی ہر شے سکول میں دستیاب ہوتی ہے‘ ہاں اگر بچے اپنے شوق سے کچھ سٹیشنری  لے جاتے ہیں تو وہ اپنے شیلف میں رکھتے ہیں‘ اپنے ساتھیوں کیساتھ ان اشیاء کو مل جل کر استعمال کرنے کو بہت اعلیٰ درجے کی قابلیت تصور کیا جاتا ہے‘ سکول کی تعلیم خصوصاً پرائمری کلاسز تک اتنی متنوع اور دلچسپی کی حامل ہے کہ بچے صبح ایسی بشاشت کے ساتھ سکولوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں جیسے ان کی زندگی میں استاد اور سکول اہم ترین حیثیت رکھتے ہیں۔فیل پاس کا کوئی تصور یہاں نہیں پایا جاتا‘ البتہ بچوں کی لیاقت اور قابلیت کا تعین ان کے رویوں اور عادات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔وہ کتنا خود اعتماد ہے‘ اپنے ساتھیوں کیساتھ اپنی اشیاء کس حد تک شیئر کرتا ہے اپنے سامان کو کتنی ذمہ داری کے ساتھ سنبھالتا ہے‘ اسکی کمیونیکیشن کی خوبی کس حد تک ہے اور کمیونیکیشن کے سکھانے کے ایسے طریقے کلاس مشاغل میں موجود ہیں کہ گونگا بھی گنگنانے لگے۔ اسکی لیڈر شپ کوالٹی کیسی ہے‘ وہ کتنا بڑھ چڑھ کر کاموں میں حصہ لیتا ہے ٹیچرز کی مدد کرتا ہے کھیلوں میں پیش پیش رہتا ہے اور نہ جانے کیا کیا کچھ اور۔ وہ سب کچھ جو ہمارے سکولوں میں ناقابل معافی جرم ہوتا ہے یاد کریں۔اپنے سکول کا زمانہ خاموشی کلاس کااولین اصول ہے‘ زیادہ بڑ بڑ کرنے والا استاد کو سخت برا لگتا ہے‘ کسی دوسرے سٹونٹ کو پنسل ربڑ دینے کی ضرورت پڑ گئی تو استاد خود منع کرتا تھا کہ وہ اپنی سٹیشنری کیوں نہیں لایا کیوں گھر بھول آیا کتاب شیرنگ کرنا گویا استاد کے غصے تو دعوت دینا ہوتا تھا لیڈر شپ کوالٹی خودنمائی کے زمرے میں آتی تھی ایسے میں والدین کو سکول بلا کر سخت سرزنش کردی جاتی تھی اور وارننگ بھی دے دی جاتی تھی‘ ہم لوگ اپنی استانی کے کلاس میں آنے پر ایسے سہم جاتے تھے کہ جیسے ہم پر بھوت کا سایہ ہوگیا ہے۔ مثالیں تو بہت زیادہ دینے کو دل چاہتا ہے لیکن اخبار والوں نے بھی اپنی کاغذی زندگیوں کو آخر آگے بڑھانا ہوتا ہے اسلئے قلم چاہتے ہوئے بھی رک رک جاتا ہے بھلا ہو اس مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کا کہ جس نے لیڈر  شپ کوالٹیز کو اوپر سر اٹھانے ہی نہیں دیا۔ کینیڈا کے سکولوں میں ہر ایک بچے کو اپنا ماضی الضمیر کھل کر بولنے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے میں نے اپنے بڑے پوتے کی بات سنی جو آٹھویں کلاس میں ہے بڑے فخر سے مجھے بتا رہا ہے دادی میرا قد میرے استاد سے لمبا ہے؟ یہ تو کیا کہہ رہے ہو کیا تم نے ناپا تھا ہاں کیوں نہیں استاد نے کہا چلو میرے ساتھ کھڑے ہو جاؤ‘ اور میں لمبا تھا‘ استاد بڑا خوش ہوا بولا تم6-3انچ ہو اور میں  صرف6 ہوں اور دادی میں استاد کو شطرنج میں بہت آرام سے ہرا دیتا ہوں‘ اُف میں نے سر پکڑ لیا میں تو خیر گزشتہ برسوں سے ان کے تعلیمی نظام کو دیکھ رہی ہوں لیکن اب تو وہ اپنی بہت ساری  خوبیوں کے ساتھ میرے کمرے تک آن پہنچا ہے‘ کیونکہ تمام ننھے منے اکٹھے ہو کر اپنے تجربات سکول کے مجھ سے شیئر کرتے رہے ہیں میں نے بہت پیار سے اپنی پیاری اکلوتی پوتی سے کہا کہ ٹافیاں لے جانا تمام کلاس فیلوز کو دے دینا‘ کہنے لگی دادی ہمیں الاؤڈ نہیں ہے کھانا شیئر کرنا‘ بس یہاں ان ملکوں میں ایک بات  واحد بات جسکے شیئر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ ہے اپنا لنچ‘ آپ سمجھتے ہونگے کووڈ گزرا ہے شاید اس لئے ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے نہیں ایسی کوئی بات نہیں‘ چند ایسی باتیں ہے کہ کوئی بچہ اپنا اپنا لنچ دوسرے بچے سے شیئر نہیں کر سکتا اور اس بات کیلئے لنچ ٹائم میں ایک نگران ٹیچر ہمہ وقت موجود ہوتی ہے اول تو یہ کہ یہاں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے بچے اکٹھے پڑھتے ہیں اور ماں باپ کو اپنے مذاہب کو لے کربہت خیال رہتا ہے‘ چونکہ معصوم بچے کسی منفی خیال کا شعور نہیں رکھتے اسلئے تعلیمی نظام میں یہ اصول رکھ دیا گیا ہے کہ کوئی اپنا لنچ کسی کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا دوئم کہ یہاں ان ممالک میں مختلف قسم کی الرجیز موجود ہیں‘ کوئی بچہ بادام والی ٹافی کھا کر بے ہوش ہوسکتا ہے‘ کوئی خاص قسم کا جوس پی کر الٹی کر سکتا ہے اور بے شمار مختلف باتیں‘ خشک میوہ جات کھانے کی الرجی ان ممالک میں اتنی زیادہ ہے کہ بعض بچے کمرے میں ان کی موجودگی سے ہی بے ہوش ہو جاتے ہیں‘ ضمناً ایک واقعہ یاد آگیا ہمارے گھر میں بھی ایک بچہ خشک میوہ جات کی الرجی کا شدت سے شکار ہے ہر وقت ایک انجکشن اسکی پینٹ کی جیب میں ایمرجنسی کیلئے موجود ہوتا ہے تاکہ ایمبولینس کے آنے تک ابتدائی طبی امداد اسکو اس انجکشن سے دی جاسکے‘ ہم لوگ ایک شادی میں شریک تھے اور وہاں  دلہن کی ماں برفی کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت ٹکڑے مہمانوں کو پیش کر رہی تھی میرے بچے نے مجھ سے پوچھا دادی میں یہ کھا سکتا ہوں میں نے برفی کی طرف دیکھا بالکل اچھی تھی کوئی نٹ کھٹ والی پوزیشن مجھے نظر نہیں آئی میں نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں‘ اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا پہلے تو اسکی آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور پھروہ بے ہوش ہوگیا۔ایمبولینس آنے میں صرف پانچ منٹ لگے لیکن ہم سب کی جان نکلتی چلی گئی ایمبولینس میں ہی اسکو ابتدائی طبی امداد سے ہوش آگیا تھا لیکن اسے ہسپتال لے جا کر مکمل چیک اپ کرکے ہی واپس بھیجا گیا وہ فنکشن ہم پر کیسا گزارا آپ جان چکے ہونگے‘ یہ بہت دن پہلے کی بات ہے بس یاد آگئی برفی میں بے شمار ڈرائی فروٹ کو گرائنڈ کرکے اسکو مزیدار بنانے کیلئے استعمال کیا گیا تھا جسکا نتیجہ ہم نے بھگتا‘ تو سکولوں میں لنچ کو شیئر نہ کرنے کے وہ حفاظتی اقدامات ہیں جن سے تعلیمی سسٹم کی انتظامیہ بچنا چاہتی ہے اسکے علاوہ تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے ایسے ایسے پروجیکٹ دیئے جاتے ہیں کہ  پانچویں سے آٹھویں تک کے طالب علم اپنے اپنے لیپ ٹاپ پر جو ریسرچ ورک کر رہے ہوتے ہیں اسکو دیکھ کر یہاں کے تعلیمی نظام کو خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ رہے ماں باپ ان کو کوئی فکر نہیں کبھی کبھار وہ جھانک کر دیکھ لیتے ہیں کہ بچہ کام کر رہاہے اور بھی کئی ایسی خوبصورت باتیں ہیں جو یہاں کے تھنک ٹینکس نے برسوں محنت کے بعد لاگو کی ہیں جس سے حقیقی طور پر آزاد ذہن کے تعلیم یافتہ افراد تعلیمی اداروں سے باہر نکلتے ہیں اور باہر آنے کے بعد ان کو کسی کی مدد‘ کسی کو سفارش کی ضرورت ہر گز نہیں پڑتی حتی کہ آپ کی تعلیمی اسناد کوئی نہیں دیکھتا آپ نے کہہ دیا کہ آپ کو کام آتا ہے آپ کے پاس فلاں ڈگری ہے تو آپ کو نوکری دے دی جاتی ہے اور پھر آپ نے ثابت کر نا خود ہوتا ہے کہ آپ کو کیا آتا ہے کاش کا لفظ تو یہاں ہمیشہ ہی میرے پاس جڑا رہتا ہے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ کیوں میں کاش‘ کاش کرتی رہتی ہوں۔

 

بشکریہ روزنامہ آج