86

بلدیاتی الیکشن سے راہِ فرار

ہمارے دوست شاعر احمد نوید کا مصرع ہے ؎ عمارت کی مرمت اس طرح کی جائے کہ سارے عیب چھپ جائیں۔ کسی بہانے ہی سہی ابھی چند سال پہلے ہی کروڑوں روپے کی لاگت سے بنائی ہوئی سڑکوں کی مرمت کا کام تیزی سے جاری ہے، جگہ جگہ کھلے ہوئے مین ہول پر نئے ڈھکن رکھے جارہے ہیں اور تو اور برسوں کے بچھڑے ہوئے منتخب کونسلر، یوسی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین دوبارہ محلوں میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بس یہی تھوڑی بہت خوبصورتی رہ گئی ہے جمہوریت کی وگرنہ تو نہ حکمرانوں کو نہ سیاست دانوں کو بلدیاتی نظام سے دلچسپی ہے ورنہ بلدیاتی الیکشن سے اس طرح راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش نہ کی جاتی۔

تصور کریں پچھلے 45 سال میں صرف چھ بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں جن میں 2015 کو چھوڑ کر سارے آمرانہ ادوار میں ہوئے چاہے غیر جماعتی بنیادوں پر یا جماعتی بنیادوں پر۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سیاسی تناظر میں پچھلے اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایک بات واضح ہو گئی کہ ایم کیو ایم (پاکستان) جس نے آخری بلدیاتی الیکشن جیتا تھا اب آہستہ آہستہ اختتامی مراحل سے گزر رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف اس کے متبادل کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ تاہم ایم کیو ایم کے زوال نے جماعت اسلامی کیلئے بلدیاتی الیکشن میں امید کے دروازے کھول دیئے ہیں اور ان کا مقابلہ اس وقت پی ٹی آئی اور پی پی پی سے ہے۔

گو کہ سیاست کی سب سے بڑی نرسری سے پی ٹی آئی بھی پنجاب میں وہی سلوک کر رہی ہے جو سندھ میں پی پی پی مگر فرق یہ ہے کہ یہاں تو پھر بھی الیکشن ہوتے ہیں اور پچھلی بلدیہ کو اپنی میعاد بھی پوری کرنے دی گئی۔ پنجاب میں تو پہلے عثمان بزدار اور اب چوہدری پرویز الٰہی راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ لہٰذا الیکشن کمیشن وہاں بھی انتخابات کروائے۔

آئندہ کراچی کا میئر یعنی ’سٹی فادر‘ کون ہوگا۔ اس کا انحصار پہلے مرحلے سے ہے جس میں 246 یوسی چیئرمین منتخب ہونے ہیں پھر اسی مناسبت سے مخصوص نشستیں خواتین، لیبر اور پہلی بار ٹرانس جینڈر کی۔ یعنی تقریباً 325 کا ہائوس پھر انتخاب کرے گا نئے میئر کا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بھی اس تین ساڑھے تین کروڑ کے شہر کی بلدیہ اور میئر کا زور صرف 34فیصد، کراچی پر ہے جب کہ اختیار دینے کو کوئی تیار نہیں اور شہر کے لئے لڑنے والے آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ کراچی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت عروس البلاد کراچی کی بھی سب سے بڑی جماعت ہو مگر کیا وہ اتوار کے روز ہونے والے الیکشن میں اتنے یوسی چیئرمین منتخب کروا پائے گی کہ میئر کی ریس میں شامل ہو جائے۔

پی ٹی آئی کے لیڈر علی زیدی کو یقین ہے کہ وہ آئندہ اپنی جماعت کا میئر منتخب کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ’’ہمارے سب سے زیادہ امیدوار ہیں، البتہ الیکشن کے بعد دیکھتے ہیں میئر اور ڈپٹی میئر کے لئے کس سے اتحاد کرتے ہیں۔‘‘ زیدی نے پچھلے دنوں دعویٰ کیا۔

پی پی پی کو ضمنی الیکشن میں ملیر سے اپنی نشست پی ٹی آئی سے واپس ملنے کی خوشی ضرور ہے مگر ان کی نظریں میئر کی سیٹ پر بھی ہیں۔ پارٹی کے مرکزی رہنما سعید غنی کا خیال ہے کہ وہ 23 اکتوبر کو اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اپنی پارٹی کا میئر منتخب کروالیں چاہے ان کو کسی سے سیاسی اتحاد کرنا پڑے۔ ’’مظہر بھائی ہم یہ الیکشن برسوں سے لڑرہے ہیں اور اس بار چار ڈسٹرکٹ میں ہماری پوزیشن اچھی ہے۔‘‘ پی پی پی اس سے پہلے دو بار اپنا ڈپٹی میئر منتخب کروا چکی ہے۔ 1979 اور 1983 میں۔

جماعت اسلامی آج جتنی پر امید ہے شاید 1979 اور 1983میں بھی نہ تھی جب مولانا عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوئے تھے جبکہ 2001 میں تو ایم کیو ایم کے بائیکاٹ نے جناب نعمت اللہ کیلئے نعمت کے دروازے کھول دیئے تھے اور وہ ایک کامیاب میئر کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد 2005 میں ایک بار پھر ایم کیو ایم نے یہ سیٹ جیت لی اور جناب مصطفیٰ کمال میئر منتخب ہوئے اور وہ بھی خاصے متحرک رہے اور بے شمار کام کیا۔ مگر اب کمال اپنی جماعت پاک سر زمین پارٹی کو کامیاب کروانے میں ناکام نظر آتےہیں۔

جماعت کے حافظ نعیم شاید اس وقت وہ واحد امیدوار ہیں جو فتح کی صورت میں میئر کے امیدوار ہوں گے جبکہ دوسری جماعتوں میں اگر اور مگر موجود ہے۔ اب جماعت کتنے یوسی چیئرمین منتخب کرواتی ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ اگر الیکشن 23اکتوبر کو ہوگئے تو مقابلہ انہی جماعتوں کے درمیان ہوگا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ الیکشن کے بعد ان میں سے دو کے درمیان میئر اور ڈپٹی میئر پر سمجھوتہ ہو جائے۔ زیادہ امکان پی ٹی آئی کے جماعت سے اتحاد کا ہے البتہ جماعت خود شاید پی پی پی سے اتحاد کرنا چاہے جس کی بڑی وجہ سندھ حکومت ہے۔ پی پی پی کے ذرائع بھی یہی کہتے ہیں مگر ان کا پی ٹی آئی سے اور انصافین کا جیالوں سے اتحاد مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان بھی کہیں کہیں اپ سیٹ کر سکتی ہے۔

رہ گئی بات کراچی کو بااختیار بلدیاتی ادارہ بنانے کی یا 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات نچلی سطح تک لے جانے کی تو یہ ایک بڑا سوال اور خواب ہے، جس کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میئر حافظ نعیم منتخب ہوں یا خرم شیر زمان، نجمی عالم آئیں یا کوئی اور پاکستان کا یہ معاشی حب ایک بااختیار بلدیاتی نظام کو ترستا رہے گا۔

گو کہ سندھ کے دیگر شہروں میں سوائے حیدرآباد، بدین میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور مجموعی طور پر پی پی پی پہلی بار میرپورخاص میں میئر لانے میں پرامید نظر آتی ہے جس کا شاید تعلق اقلیتی برادری سے ہو۔ انہیں یہ بھی امید ہے کہ پہلی بار حیدرآباد کا میئر بھی پی پی پی کا ہوسکتا ہے۔

اس سب کے باوجود کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کروانے کی درخواست اور 2020 کے بعد سے شہر کو غیر منتخب ایڈمنسٹریٹر سے چلانے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔

آخر میں ایک بات ’’ذرا ہٹ کر‘‘ 23 اکتوبر امتحان ہوگا سیاست اور کرکٹ کا۔ جتنا بڑا سیاسی معرکہ ہے اتنا ہی بڑا کرکٹ کا ٹاکرا ہے پاکستان اور بھارت کا۔ یہ پریشانی علی زیدی کے چہرے پر عیاں تھی جب عمران خان کراچی آئے اور میڈیا کے ساتھ گپ شپ ہوئی۔ اس کا الزام بھی انہوں نے الیکشن کمیشن پر رکھ دیا۔ شکر ہے آئی سی سی پر نہیں رکھا۔ مگر عمران کا جواب کمال تھا۔ ’’آخر میچ کس گرائونڈ پر ہے‘‘ بس کپتان نے نتیجہ نہیں بتایا۔ مبارک ہو پی پی پی کی سندھ حکومت کو کہ ان کا بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کا ریکارڈ برقرار ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم