117

تینوں رب دیاں رکھاں

بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعدمحبتیں سمیٹتے ہوئے رخصت ہوں میں بہت سے ایسے افسران کو جانتا ہوں جب وہ ریٹائر ہوکر دفتر سے رخصت ہورے ہوتے ہیں تو انکے ماتحت سالہاسال سے کام کرنے والے انہیں ملنے تک نہیں آتے لیکن محکمہ جیل خانہ جات کے آئی کی ریٹائرمنٹ کے عجیب ہی مناظر تھے ملازمین کے ساتھ ساتھ دوستوں کی بھی ایک لمبی قطار تھی جو انہیں رخصت کرنے انکے دفتر پہنچے ہوئے تھے ملازمین کا پیار و محبت دیکھنے کے قابل تھا سیالکوٹ میں 21اکتوبر 1962کو پیدا ہونے والا خوبصورت انسان مرزا شاہد سلیم بیگ آخر کار عزت و وقار کے ساتھ گذشتہ روز اپنی 60سالہ مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوگئے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد 22اپریل 1997کو محکمہ جیل خانہ جات میں بطور سپرنٹنڈنٹ بھرتی ہوئے اور راجن پور جیل میں پہلی تعیناتی ہوئی جسکے بعد مظفر گڑھ،کیمپ جیل لاہور،ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد،سنٹرل جیل گوجرانوالہ،سنٹرل جیل راولپنڈی اور سنٹرل جیل بہاولپور میں بھی بطور سپرنٹنڈنٹ خدمات سرانجام دیں اسکے بعد اگلی ترقی بطور ڈی آئی جی 26ستمبر2009کو ہوئی تو لاہور،فیصل آباد اور راولپنڈی میں خدمات سرانجام دینے کے بعد 27اکتوبر 2017کو آئی جی جیل خانہ جات بن گئے میں سمجھتا ہوں کہ آج تک کے آئی جیز کے مقابلہ میں سب سے زیادہ کام انہوں نے کیے جیل میں بند اور جیل کے اندر ملازمت کرنے والوں کے لیے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں جیل اصلاحات کے حوالہ سے انکے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس چھوٹے سے کالم میں سما نہیں سکتی مگر انکے چند ایک کارنامے لکھ کر میں بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ جیل کے اندر اگر ظالم بند ہیں تو وہیں پر مظلوم بھی قید ہیں پیسے والے اور سفارشی جیل میں عیاشیاں کرتے ہیں تو وہیں پر مظلوم اور غریب افراد بھی سکون سے زندگی کی گاڑی کو دھکا لگارہے ہیں کہتے ہیں کہ جیل کے اندر بند تو کہیں آجا نہیں سکتا روٹی جیل میں وقت پر مل جاتی ہے مگر جو انکے لواحقین ہیں وہ مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں خاص کر جیلوں میں ملاقات کے حوالہ سے اس میں بھی بہت سی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں اور رہی بات جیل ملازمین کی جو تقریبا 24گھنٹے اپنے آپ کو ڈیوٹی پر سمجھتے ہیں ایک جیل ملازم کا ایمانداری سے کام کے دوران اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانا ایک خواب ہوتا تھا اس حوالہ سے مرزا شاہد نے بہت کام کیا حکومت پنجاب سے اپنے ملازمین کے ترقی اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے دن رات کام کرتے ہوئے انہیں انکا ایک باعزت مقام دلایا گریڈ 1 سے 4 تک 3000، گریڈ 5 سے 11 تک 5000 اور گریڈ 12 سے 16 تک 7500 پریزن الاؤنس جبکہ گریڈ 17 کو 40 ہزار، گریڈ 18 کو 60 ہزار، گریڈ 19 کو 70 ہزار، گریڈ 20 کو 95 ہزار اور گریڈ 21 کو 1 لاکھ پریزن الاؤنس منظور کروایابلکہ جیل خانہ جات کے ملازمین کا دیرینہ مطالبہ بھی پوراکرتے ہوئے ملازمین کا سکیل اپ گریڈکیاجسکے بعد وارڈر کو سکیل 5 سے 7، ہیڈ وارڈر کو سکیل 7 سے 9، چیف وارڈر کو سکیل 9 سے 11 اور مذہبی ٹیچر کو سکیل 12 سے 15 کر دیا اسکے ساتھ ساتھ جیل ملازمین کی فیملیز کو صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ انکے بچوں کی تعلیم کے لیے ناقابل فراموش اقدامات کیے شدید گرمیوں کے موسم میں جیل ملازمین کو پورا یونیفارم پہننے کی بجائے خاکی پینٹ کے ساتھ کالے رنگ کی ٹی شرٹ اور پی کیپ پہننے کی اجازت دی قیدیوں اور حوالاتیوں کو قابل عمل اور کارآمد شہری بنانے کے لیے TEVETA کی مدد سے مختلف کورسسز شروع کروائے تاکہ وہ جیل سے رہائی پانے کے بعد معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں مرزا شاہد سلیم بیگ نے اپنے دور میں پنجاب بھر کی جیلوں کی سنٹرل مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے 24 گھنٹے نگرانی کا عمل شروع کروایا اور عوامی شکایات کے بروقت ازالہ کے لیے محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کا شکایت سیل بھی 24 گھنٹے کام کر رہاہے پنجاب بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو اپنے لواحقین سے بات کرنے کے لیے PCO کی سہولت دی اور مستقبل قریب میں قیدی ویڈیو کال بھی کر سکیں گے جیل میں بند افراد کے لیے ایک اہمکام جو آئی جی نے کیا وہ بنک میں اکاؤنٹ کا تھا جسے انہوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا انہوں نے Wateen اور BOP، PMIS کے انضمام سے پنجاب بھر کی جیلوں کو Cashless Enteries بنادیاجس میں قومی شناختی کارڈ اور PIMS نمبر کی مدد سے قیدیوں کے پنجاب بنک میں اکاؤنٹ کھولے جارہے ہیں قیدیوں کے ورثاء جیل کی بجائے پنجاب بنک جا کر قیدی کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرا سکیں گے اس رقم کو قیدی بائیو میٹرک تصدیق کے ذریعے جیل کینٹین سے خریداری اور جیل PCO کی ادائیگی کے لیے استعمال کر تے ہیں اور جیل سے رہائی پر قیدی اپنے اکاؤنٹ میں موجود بقایا رقم پنجاب بنک سے وصول کر سکیں گے ملاقات کے لیے آنے والوں کے لیے مزید آسانیاں پیدا کی شکایت سیل کا فون نمبر اور وٹس ایپ نمبرجیلوں کی دیواروں پر آویزاں کروائے جہاں قیدی اور انکے ورثاء کال یا وٹس ایپ کر کے جیل انتظامیہ کے خلاف اپنی شکایت درج کرا سکیں گے اس شکایت سیل کے قیام کا مقصد ہے کہ قیدیوں اور انکے ورثاء کی شکایات کا بر وقت ازالہ کیا جا سکے مرزا شاہد سلیم بیگ نے اپنے دور میں بہت سے کارنامے سرانجام دیے اور خاص کر ملازمین سے انکی محبت ڈھکی چھپی نہیں یہی وجہ تھی کہ آئی جی دفتر سے انکی رخصتی ایسے کی گئی جیسے دلہن کو اسکے گھر والے پیار، محبت،خلوس اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ان سب کی زبان پر ایک ہی لفظ ہو کہ جا تینوں رب دیاں رکھاں امید ہے کہ ملازمین اور قیدیوں کے فلاح وبہبود کا جو سلسلہ وہ روشن کرکے گئے ہیں انکے بعد آنے والے اس شمع کی لو کو مدہم نہیں ہونے دینگے بلکہ اسکی روشنی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے

بشکریہ اردو کالمز