168

ستمبر کا کالم اکتوبر میں

یہ کالم میں نے ماہ ستمبر میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن کتابوں کی گم شدگی نے اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا، گمشدہ دونوں کتابیں اچانک ہی میرے سامنے آگئیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے بہ ذریعہ ڈاک آنے والی کتابیں توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں اور پچھلی کتب کو احتیاط سے دوسری جگہ منتقل کردیا جاتا ہے بہرحال آج جن دو کتابوں پر خامہ فرسائی کروں گی ان دونوں کا تعلق افسانوں سے ہے اور عنوانات بھی ستمبر کے مہینے کی دلکشی کو اجاگر کر رہے ہیں۔

’’ستمبر کا سمندر‘‘ کے مصنف شاکر انوار ہیں، جب کہ دوسرا مجموعہ ’’مجھے ستمبر پسند ہے‘‘ یہ محمد طارق علی کی تصنیف ہے۔ تخلیق کاروں نے بیرون پاکستان کے ماحول، رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کو موضوع بنایا ہے۔ دونوں کتابوں کے افسانوں میں اردو اور ہندی زبان کے الفاظ کی آمیزش نے مٹھاس پیدا کردی ہے۔

شاکر انور اس کتاب سے قبل دو ناول ’’دھواں‘‘ اور ’’بلندی‘‘ لکھ چکے ہیں ایک افسانوں کا مجموعہ کئی سال قبل بہ عنوان ’’خواب، خوشبو اور خاموشی‘‘ کے نام سے منظر پر آ چکا ہے۔ ’’ستمبر کا سمندر‘‘ اس کتاب میں افسانے شامل ہیں۔ تمام افسانے اپنی بنت اور اسلوب بیان کے اعتبار سے اپنا اثر رکھتے ہیں۔ مصنف کی محنت، توجہ اور تجربات کے دلکش رنگوں نے قاری کو مطالعے پر مجبور کردیا ہے۔ کتاب کا پہلا افسانہ ’’زرد پتوں کی موت‘‘ ہے۔

افسانے کا جنم سنگاپور کی حسین رتوں میں ہوا ہے، ہجر و وصل کے احساس و جذبات سے مزین افسانہ پڑھنے والے پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ یہ مصنف کی خوبی ہے کہ انھوں نے ابتدا سے انتہا تک کرداروں کو اپنی گرفت میں رکھا اور ایک توازن اور سحر انگیزی کے ساتھ یہ افسانہ اپنے قارئین کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اس کا انجام بھی تحیر، پچھتاوے اور اس درد کی اذیت کے ساتھ ہوتا ہے جسے شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا اظہار ممکن نہیں ہے۔

کلیدی کردار ایک پاکستانی شخص کا ہے، اس کردار کا نام درج نہیں ہے۔ اس پاکستانی کو سنگاپور کی فضائیں اس قدر راس آتی ہیں کہ وہ ’’انیتا‘‘ نامی خاتون کو نہ صرف یہ کہ دل دے بیٹھتا ہے بلکہ اپنا گھر بار، اپنی اولاد کو بھی فراموش کر دیتا ہے۔ انیتا سے اس کے دو بچے سریتا اور بنٹی پیدا ہوتے ہیں۔ عورت کسی بھی معاشرے کی ہو وہ شادی کرنا چاہتی ہے۔ شوہر کی شکل میں عزت و تحفظ کی متمنی ہوتی ہے، اگر اس کے برعکس ہوتا ہے تو دکھ، محرومی، شرمندگی کی تصویر بن جاتی ہے۔ اسی افسانے سے چند مکالمے۔

’’آپ کے پتی دیو آفس سے گھر آگئے ہیں؟ ‘‘میں نے خالص ہندوستانی لہجے میں کہا۔’’ پتی دیو۔۔۔!‘‘ اس نے یہ لفظ ایسے دہرایا جیسے پاتال میں کسی نے اسے دھکا دے دیا ہو۔ اس ایک لفظ میں اس کی ذات کا کرب سمٹ آیا تھا۔ ایک بار پھر گہرے اور گدلے پانیوں سے اس کی آواز ابھری۔’’ آپ کو کچھ بتایا نہیں انھوں نے کہ ہماری شادی نہیں ہوئی۔‘‘

اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا، دراصل ہم دونوں ایک خوب صورت مگر نازک بندھن میں اچانک بندھ گئے۔ پھر ہمارے دو بچے ہوئے، رشتوں کی زنجیر بہت مضبوط ہوتی ہے۔‘‘

’’جمیرہ بیچ‘‘ بھی ایک ایسا ہی افسانہ ہے جہاں محبت کی تپش، گرم و سرد، موسم اور پیار کے گیت الاپتی ہوائیں، باد سموم اور جدائی کا رستا ہوا زخم، کہانی کے باطن میں رچ بس گیا ہے یہ افسانہ دبئی کی پرسکون فضاؤں، بلند و بالا عمارتوں کا حسن اور مغربی تہذیب کے طلسم اور مشرقی سوچ کے سنگم سے جنم لینے والی کہانی ہے، ہر جملہ دل کو چھوتا ہے۔

’’وہ بڑی حیران آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی اور میں اسے، ہم دونوں کو سمندر دیکھ رہا تھا اور سمندر کو آسمان۔ ایک باحیا لڑکی کی کہانی جس نے محبت کے سراب کو شکست دے کر اپنا گھر بچا لیا، لیکن دل کے نہاں خانوں میں محبت اب بھی زندہ تھی، لیکن ہارنے کے بعد جیت کی تمنا دم توڑ گئی تھی۔ شاکر انور کے کئی افسانے ایسے ہیں جو تادیر ذہن کے گوشوں میں جگ مگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ممتاز افسانہ نگار طارق علی عرصہ دراز سے قلم و قرطاس کے ذریعے افسانوں کی دنیا آباد کر رہے ہیں، وہ بہترین افسانہ نگار ہیں، انھیں پاکستان سے باہر نیپال جانے کا موقعہ ملا، وہاں کی ثقافت و تہذیب کو قریب سے دیکھا، آزاد فضاؤں میں رہتے بستے لوگ انھیں اچھے لگے، نیپال میں بھی اکثریت ہندوؤں کی ہے دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے کم ہی لوگ آباد ہیں۔

طارق علی افسانوں کے علاوہ تراجم کرنے کی صلاحیت اور لیاقت سے آراستہ ہیں۔ دو جاسوسی ناولوں کے تراجم کرچکے ہیں بعنوانات ’’ایک لڑکی چار تابوت‘‘ اور ’’تیسرا ایجنٹ‘‘ لاہور سے شایع ہو چکے ہیں۔ صحافت سے بھی گہرا تعلق رہا ہے، اہم سرکاری اداروں میں فرائض منصبی کی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔

’’مجھے ستمبر پسند ہے‘‘ مصنف کی یہ پہلی کتاب ہے، مگر افسانے مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہو کر قارئین و ناقدین سے داد وصول کرچکے ہیں۔ کتاب میں 13 افسانے شامل ہیں۔ ہر افسانہ زندگی سے بھرپور اور اثر انگیزی سے پر ہے کچھ افسانے طویل ضرور ہیں لیکن کہانی کے اتار چڑھاؤ، منظرنگاری اور کردار نگاری نے افسانوں کو توانائی بخشی ہے، ان کے افسانے زندگی کے دکھ سکھ، موسموں کی تازگی، خزاں کی تپش اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر افسانے کھٹمنڈو کی حسین وادیوں میں پروان چڑھے ہیں۔

’’مجھے ستمبر پسند ہے‘‘ اس افسانے نے 35 اوراق پر اپنا روپہلا رنگ جمایا ہے۔ محبت کی دھیمی آنچ سے سلگتی ہوئی کہانی قاری کے دلوں کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ سچے جذبوں اور محبت کی چاشنی سے گندھا ہوا افسانہ اپنی کردار نگاری، ماحول سازی اور وہاں کی اقدار، رسم و رواج کے بندھن میں بندھا ہوا ہے۔ قاری کے لیے بہت سی معلومات کے در وا کرتا ہے۔

کہانی بڑی نزاکت اور لطافت کے ساتھ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ محبت ناکام ہو جاتی ہے اور انجام ایک نئی خوش آیند زندگی کا پتا دیتا ہے۔ اس افسانے میں کھٹمنڈو کی عمارات، عبادت گاہیں خصوصاً مندر، پوجا پاٹ، شمشان گھاٹ جہاں مصنف کی ملاقات نیپالی لڑکی نمرتا سے ہوتی ہے۔ دلت لوگوں کی بے بسی اور کم مائیگی کا نوحہ، مرکسانہ ہوٹل۔ طارق علی کی تحریر کا یہ کمال ہے کہ وہ بڑے اچھوتے انداز میں منظر نگاری کرتے ہیں۔ افسانے سے چند سطور:

یہ وقت ہی کا کرشمہ تھا کہ کھٹمنڈو کی حسین وادی میں بھرپور برسات اپنا جوبن دکھا کر بیت چکی تھی۔

ہندوؤں کا سب سے بڑا دسہرے کا تہوار آگیا، ہرجا خوب گہما گہمی، سجاوٹیں، رونقیں اور جابجا مندروں میں بجنے والی گھنٹیوں سے شہر کے ماحول میں ارتعاش سا آگیا تھا، رقص و نغموں کے تسلسل سے جیسے پورا شہر ناچ اٹھا تھا، شام کے وقت گھر گھر سجاوٹوں کا سماں دیدنی تھا، پوری کھٹمنڈو کی وادی میں قمقمے کیا جلے مجھے یوں لگا کہ جیسے آسمان سے ستارے نیچے اتر آئے ہوں۔

افسانہ ’’ٹیوشن‘‘ میں جابجا ان لڑکیوں کے کردار نظر آتے ہیں جو شرم و حیا سے بے گانہ، شوخ اور چنچل ہیں، مصنف کے دوسرے افسانے بھی قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ دونوں مصنفین کو خلوص دل کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں۔

بشکریہ ایکسپرس