ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

 واقفان حال خصوصاً ان لوگوں کی کہ جو اس ملک کے ایوان اقتدار کے قریب رہے ہیں، ان سب کی یہ متفقہ  رائے ہے کہ غلام اسحاق خان جیسا صدر نہ ان سے پہلے آیا اور نہ ان کے جانے کے بعد۔ سوال یہ پیدا ہوتا  ہے کہ آخر وہ کونسی صفات ہیں جو ان کو دیگر صدور سے ممتاز کرتی ہیں اس ملک کی نئی نسل کو غلام اسحاق خان جیسی شخصیت کے کردار اور اسکے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرانا ضروری ہے۔ ان جیسا شخص اگر انگلستان میں پیدا ہواہوتا تو وہاں کے الیکٹرانک میڈیا نے ان کی زندگی پر دستاویزی فلم بنائی ہوتی جو ہر سال ان کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر دکھلائی جاتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ  وہ مالی طور پر ایک نہایت دیانتدار شخص تھے انہوں نے بطور سول سرونٹ اس ملک کی نہایت ہی اہم اور کلیدی آسامیوں پر ایک لمبے عرصے تک کام کیا۔وہ واپڈا کے چیئرمین تھے۔ سٹیٹ بنک کے گورنر کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنے فرائض منصبی بطریق احسن اداکئے۔وہ فنانس سیکرٹری بھی رہے اور مرکزی حکومت میں سیکرٹری جنرل۔بھی اگر وہ اپنے اختیارات سے ناجائزفائدہ اٹھاتے تو اپنے پیچھے اربوں روپے کی جائداد چھوڑ گئے ہوتے پر جب وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس چند مرلوں پر مشتمل وہی زمین تھی جو ان کو ورثے میں اپنے والد سے ملی تھی اس میں انہوں نے رتی بھر اضافہ نہیں کیا تھا۔ اسی طرح  بطور چیئرمین سینٹ اور صدر پاکستان بھی ان کا کردار مثالی تھا۔  وہ کنبہ پروری کے خلاف تھے اور سرکاری وسائل کو اپنے یا اپنے  خاندان  کے ذاتی کاموں کے لئے کبھی بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ان کا ایک ہی بیٹا تھا وہ بھی اپنے باپ ہی کی طرح تھا کیونکہ جب وہ پشاور یونیورسٹی میں engineering کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو کسی کو پتہ نہ تھا کہ اس کا والد صدر پاکستان  غلام اسحاق خان ہے۔ اسی طرح جب وہ امارات میں ایک نجی کمپنی میں ملازم تھا تب بھی اس کمپنی والوں کو یہ خبر نہ تھی کہ وہ صدد پاکستان کا فرزند ہے کیونکہ اس نے کسی کو یہ بتایا ہی نہ تھا کہ اس کا والد پاکستان کا صدر ہے۔ گھر سے جاتے وقت وہ اپنی والدہ کو بس اپنا فون نمبر دے گیا تھا ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جب اس کی والدہ کو اس کی یاد ستانے لگی تو انہوں نے ایوان صدر کے ٹیلی فون ایکس چینج کو اس کا وہ نمبر ملانے کو کہا اس وقت کہیں جاکر ایوان صدر  کے عملے اور اس کمپنی کے مالکان پر یہ راز کھلا کہ وہ  غلام اسحاق خان کا بیٹا ہے اور وہ کہاں ملازمت کر رہاہے۔ ایک مرتبہ غلام اسحاق خان کا بیٹا کسی ذاتی کام کی
 غرض سے اسلام آباد کے بلیو ایریا جانا چاہتاتھا اس نے جب اس مقصد کیلے سرکاری گاڑی مانگی تو اسے ہدایت کی گئی کہ وہ ٹیکسی میں چلا جائے۔ یہ تھا احتیاط کا عالم۔وہ نجی کاموں کے واسطے سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کے خلاف تھے وہ اسراف کے سخت مخالف تھے ان سے پہلے ایوان صدر میں روزانہ ایوان صدر کے  عملے اور مہمانوں کے  خوردو نوش پر50 ہزار روپے  کے قریب قریب خرچہ اٹھ جاتا تھا جو غلام اسحاق خان کے دور میں گھٹ کر 1900 روپے روزانہ ہو گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے غلام اسحاق خان کہا کرتے کہ روپے درختوں پر نہیں اُگتے۔ سرکاری پیسوں کو نہایت ہی ضروری عوامی فائدے کے کاموں پر خرچ کرنا چاہئے نہ کہ حکمرانوں کے اللوں تللوں پر۔ کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ کسی کام کیلئے ان کو سفارش کر سکے ان
 کے سگے رشتہ داروں کو یہ گلہ ہی رہا کہ غلام اسحاق خان نے ان کی کسی سفارش کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ غلام اسحاق خان نے ساری زندگی سادگی محنت شاقہ اور ملکی قوانین کی پاسداری میں گزاری۔صرف  دیانتدار اور قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ ہی ان کے ساتھ چل سکتے تھے۔ واقفان حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ غلام اسحاق خان کا اس کار نمایاں کی تکمیل میں کلیدی کردار تھا۔ایک مرتبہ تو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر اہلکار اور ان کے درمیان اسلام آباد میں ایک میٹنگ کے دوران اس بات پر جھڑپ بھی ہوئی تھی جب وہ ان پر یہ پریشر ڈال رہا تھا کہ پاکستان اٹیم بم بنانے کے ارادے کو ترک کرے اور غلام اسحاق خان کا موقف یہ تھا کہ امریکہ کون ہوتا ہے کہ وہ کسی آزاد اور خودمختار ملک کے معاملات  میں دخل اندازی کرے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اس بات کے معترف تھے کہ غلام اسحاق خان کا اٹیم بم بنانے کے پراجیکٹ کی کامیابی میں بہت بڑا ہاتھ تھا۔ غلام اسحاق خان پہلے سینٹ کے چیئرمین بنے اور بعد میں جب صدر ضیا الحق ایک فضائی حادثے کا شکارہوئے تو وہ صدر بنے۔اس سے پیشتر ایک مرتبہ انہیں وزیر اعظم بننے کی بھی پیشکش کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دی تھی۔یہ تاثر غلط ہے کہ وہ ایک خشک مزاج انسان تھے۔وہ نہایت پڑھے لکھے انسان تھے گو کہ وہ سائنس کے مضمونوں کے طالب علم تھے پر ان کو فنانس پر اتنا عبور ہو گیا تھا کہ مالی اور معاشی معاملات میں ان کی رائے کو حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ ان کو اردو انگریزی اور فارسی ادب پر بھی کافی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں میں کی گئی شاعری کو وہ اکثر اپنی بات چیت کا حصہ بناتے تھے۔یہ علحیدہ بات ہے کہ وہ کم گو اور کم آمیز تھے وہ بولتے کم اور سنتے زیادہ تھے۔  

 

بشکریہ روزنامہ آج