116

27 اکتوبر یوم سیاہ ،تسلط اور ظلم ۔۔۔۔!!

اکتوبر 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف کشمیری عوام کی فتوحات کو دیکھتے ہوئے پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے دوست لارڈ ماؤنٹ بیٹن شدید پشیمانی کے عالم میں تھے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو مسئلہ کشمیر اٹھا کر اقوام متحدہ میں لے گئے، جہاں اقوام متحدہ کی قرارداد میں کشمیری عوام کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے یہ فیصلہ کریں کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہیں گے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے، نہرو اور ماونٹ بیٹن جانتے تھے کہ کشمیری عوام کی کیا رائے ہے؟ اس لئے وہ شدید خوف کے عالم میں کبھی مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس جاتے تو کبھی شیخ عبداللہ سے سازباز کرتے  کشمیر پر اقوام متحدہ کی گیارہ قراردادیں  اب تک منظور ھو چکی ھیں، جنگ بندی کی آڑ میں بھارت نے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں  سات لاکھ فوج اتار کر ناجائز تسلط قائم کر لیا مگر اس کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلوں میں کمی نہیں آئی، اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر استصواب رائے سے فیصلہ کرنے کا اختیار  دیا گیا تھا، جوال لعل نہرو نے کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ کیا اور اپنی نشری تقریر میں وضاحت کی کہ کشمیر کا فیصلہ رائے شماری سے ھو گا، استصواب رائے سے بچنے کے لیے جوال لعل نہرو نے ایک اور چال چلی تاکہ کشمیری عوام کو بھارت کی طرف راغب کیا جائے۔
   یہ سن 1954ءکا واقعہ ہے کہ بھارتی صدر راجندر پرساد نے صدارتی فیصلے کے تحت بھارت کے آئین میں آرٹیکل 35 اے کو شامل کیا ، جو بھارتی وزیراعظم جوال لعل نہرو اور کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کے درمیان مذاکرات میں طے پایا تھا، اس شق کے تحت 1921ء کے قانون کو قائم رکھا گیا تھا، اس موقع پر نہرو نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ"اتفاق رائے کے مطابق کشمیر کی اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہری حقوق اور مراعات کی تعریف کرنے کا اختیار ھو گا، خصوصاً جائیداد کی خرید، سرکاری ملازمتوں اور اس نوعیت کے دیگر معاملات"  
  اس پس منظر کے باوجود بھارت کی مختلف حکومتوں نے کشمیری عوام پر اپنا تسلط جمانے کے لیے اپنی سیاسی جماعتوں کو کشمیر میں انتخابات کی دوڑ میں شامل کیا، کشمیر عوام کی دو تہائی اکثریت ان انتخابات کو مسترد کرتی رہی ہے،  گانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی، اپنے حمایتیوں کے ذریعے  کشمیری عوام پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم نہیں کر سکے، بھارت کے ساتھ شیخ عبداللہ، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی وفاداریوں کے باوجود کشمیر کی آئینی حیثیت چھیڑنے کی ھمت نہیں ہوئی، گورنر راج نافذ کیے، کشمیر ھائی کورٹ سے بھی مدد لی گئی ، سب سے زیادہ کوشش بی جے پی کی انتہا پسندانہ نظریات کے ذریعے ہوئی 2014ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر سے اپنے نمائندے کھڑے کیے ، ناکامی کی وجہ سے وہ اپنے منشور اور نظریات کو نافذ نہیں کر سکی، بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے 2014ء میں اپنے منشور میں اعلان کیا تھا کہ ھم ھندوستان کو صرف ھندو کی نظر سے دیکھیں گے اور یہی ہمارا ووٹ بینک ھو گا، منشور کے اھم نکات میں آرٹیکل 370,اور 35 اے کا خاتمہ، رام مندر کی تعمیر اور اقلیتوں کے لیے الگ قانون شامل تھے، جس کے عملی نفاذ میں دو تہائی اکثریت آڑے آ گئی، اسی نظریہ کو بی جے پی ، نریندر مودی نے 2019ء کے الیکشن میں زیادہ کیش کروایا، پلوامہ میں اپنے ہی فوجیوں کو ہلاک کروا کر پاکستان کے خلاف واویلا کیا، پوری انتخابی مہم اسی ایجنڈے پر چلائی، ارنب سوامی مشہور بھارتی اینکر نے پلوامہ اور فالس فلیگ آپریشن سے پردہ اٹھایا ہے، سیکولر بھارت کے خلاف منظم حکمت عملی بی جے پی شروع دن سے اپنائے ہوئے تھی جس کو 2019ء کا الیکشن جیتنے کے فوری بعد 5 اگست کو پارلیمنٹ کے ذریعے خصوصی آئینی شکوں 370 اور 35 اے کو ختم کیا، یہی نہیں بلکہ کشمیر میں مزاحمت پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ کے درختوں اور کوے کو بھی نشانہ بنایا، جواب میں پاکستان کے شاہینوں نے "سرپرائز" اٹیک کر کے ایس یو 30 اور بھارتی مگ طیارے مار گرائے،ابھی نندن کو گرفتار بھی کیا، امن کی خاطر رہا بھی کیا، افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں کشمیر پر سیاست کرنے والے 2014ءکے بھارتی الیکشن ھوں کوئی نہیں بولا  کیا کشمیر صرف سیاست کے لیے رہ گیا ھے ؟آج کشمیر کی ابادی تبدیل کرنے کے لیے لاکھوں ڈومیسائل بنائے جا رہے ہیں ، عوام اور کشمیری قیادت محکوم ھے بدقسمتی سے یہاں صرف سیاست ہو رہی ہے، شاہینوں نے 27 فروری کو بھارت کو ایسی مات دی کہ وہ اب رافیل طیارے خریدنے کے بعد ارجن ٹینکوں کے انبار لگا رہا ہے، یہ یاد رہے کہ پاکستانی انجینئرز نے میراج طیاروں کی اور ھالنگ اور جے ایف تھنڈر لڑاکا طیاروں سے 27 فروری کو اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو شکت دے ڈالی ہے، خالد، ضرار، شاہین اور غوری بھی تیار کھڑے ہیں، امن کا راستہ چنیں گے تو خطے کا مستقبل شاندار ھو سکتا ھے ورنہ جنگ تو پھر جنگ ھے کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔27 فروری کاسر پرائیز یاد رکھنا چاہیے۔جبکہ ھمیں 27 اکتوبر بھی نہیں بھولنا چاہیے جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا ، سیاسی دانش مندی ، ھو یا جنگ بندی دونوں سے فایدہ نہیں اٹھا سکے ، آج یوم سیاہ تو منایا جاتا ہے مگر تہاڑ جیل میں زندگیاں قربان کرنے والے یاسین ملک ، الطاف شاہ ، اشرف صحرائی ، سید علی گیلانی ، مسرت بھٹ اور شبیر احمد شاہ جیسے لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ ھماری قربانیاں کب رنگ لائیں گی ،سب سے بڑھ کر کشمیر کو تقسیم اور ابادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے بھارت جو کچھ کر رہا ہے اسے کون روکے گا ؟

بشکریہ اردو کالمز