399

لانگ مارچ و عوام اور حکومت

اللّٰہ خیر، پاکستان بڑے گرداب میں پھنس گیا ،گھمائو کی رفتار تیز تر اور پانی کی گہرائی تشویشناک ہے ۔ پورا ملک، عوام، سیاسی جماعتیں اور حکومت سب اس بھنور کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ۔اگر کوئی سمجھ رہا ہے کہ وہ اپنی سکت و صلاحیت کی بنیاد پر تنہا محفوظ ہے، وہ اس مہلک غلط فہمی سے نجات پاکر ہی بحران کو کم اور ختم کرنے میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مان لیں کہ ہم سب ہی تنہا ہو گئے اور غضب خدا کا اللّٰہ تعالیٰ بھی ناراض معلوم ہوتاہے، یا اللّٰہ ہم پر رحم فرما۔ آمین ۔فقط ایک دنیاوی امید ہے عوام تقسیم تو ہیں لیکن ان کی اکثریت اپنی تمام تر بے کسی و بے بسی اور گرتی اقتصادی حالت اور کچن کی ویرانی کے باوجود تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصاً ’’زیر بحث تین ‘‘ میں سب سے زیادہ حالات کی نزاکت اور حساسیت کو بخوبی سمجھ رہے ہیں بحران کے حل کوبھی اور اسی جانب مائل نظر ہے جو ان کے ہمنوا نہیں، شکر ہے وہ حکمت کی اخلاقی بنیاد سے محرومی پر خاموش تصادم سے گریزاں اور انتہائی خود غرضانہ سیاست میں مزید استعمال ہونے کو، خصوصاً جاری بحران میں، ہرگز تیار نہیں ۔یاد رکھا جائے سیاسی و انتظامی سورمائوں نے ایسے میں کسی بھی حربے سے عوام کے شعور و بیداری کو بھی چھیڑ دیا تو پورے ملک کی بدتر اور مسلسل تشویش میں موجود صورتحال مکمل قابو سے باہر ہو جائے گی ،عوام کےشعور اور مسلسل بیداری کا عمل تو قابل اطمینان ہے لیکن اسے منیج کرنا سیاسی قائدین اور پارٹیوں کیلئے بڑا چیلنج ہے، ہماری سیاسی جماعتوں بلاامتیاز حکومت اور اصلی اپوزیشن اور ہمیشہ ان کو چینج کرنے والوں کی سیاسی بحران کو مینج کرنے کی صلاحیت اب ہرگز اتنی نہیں رہی کہ وہ اتنے بگڑے اور تباہی کی طرف مائل حالات کو سنبھال لیں۔ گھمبیر سیاسی ماحول میں اس نئی حقیقت کی تصدیق عوامی سیاسی رویے سے ہو رہی ہے تمام سیاسی قائدین اور حکومت و سیاست کے منیجرز اس پر خبردار رہیں۔ داخلی سلامتی کے تحفظ کی فکر اب سرحدوں کے تحفظ کے برابر ہوگئی ہے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر نظر بد کے حوالے سے بھارتی وزیر دفاع کا حالیہ بیان بھی ذہن نشیں رہے۔

اس پس منظر میں ایک دوسرے سے 180ڈگری کی دوری پر حکومت و پی ٹی آئی کے درمیان اور پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بحران میں ٹھہرائو لانے اوراس کا حل نکالنےکیلئے محتاط ہو گئیں ۔مذاکراتی کاوشیں بھی بے نتیجہ ختم ۔ جرنلسٹ ارشد شریف کی دیار غیر میں شہادت اور اس پس منظر میں ان پر دو ردراز علاقوں تک میں سنگین الزامات پر 16ایف آئی آرز کے اندراج کے حکومتی اقدام سے میڈیا کی پیداوار نیشنل کمیونیکیشن فلو پر اسی حساس موضوع اور اس کے طوالت پکڑتے ناگزیر فالو اپ سے بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ اور گھمبیر ہوگئی ۔شہید کا جنازہ صرف جنازہ نہیں تھا سب کو حالات کی سنگینی سمجھانے کا بڑا ذریعہ بھی بنا ،عوامی رجحانات جاننے کے لئے کروڑ ہا روپے کی سائنٹفک ریسرچ سے ان نتائج تک پہنچ نہیں ہوسکتی جو پاکستانی صحافی کے جنازے پر مفت میں حاصل ہو گئی جو کسی بھی شکوک و شبہات سے پاک ہے ،حل کی تلاش میں ان سے فائدہ اٹھایا جائے ۔بڑھتے ہوئے تشویشناک عدم استحکام میں ایک بڑی مثبت پیش رفت یہ ضرور ہوئی کہ عمران خان نے اپنے واحد سیاسی ہدف ’’عام انتخابات کے جلد انعقاد‘‘ کیلئے حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے جس لانگ مارچ کا بالآخر اعلان کر دیا ، جو یہ سطور قلمبند ہونے پر لاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہو چکا ہے، اس کے ڈیزائن میں بہت مثبت تبدیلی کی ۔ انہوں نے قوم سے خطاب کرتے واضح اعلان کیا ہے (جس کی تکرار جاری ہے) کہ وہ احتجاج و اظہار کے اس آئینی حق کے استعمال کو پرامن اور بامقصد رکھنے کیلئے عدالتی احکامات پر مکمل عمل کریں گے۔ ریڈزون میں نہیں جائیں گے ۔واضح رہے اس پر حکومت کو شدید اعتراض تھا اور اس کے جواب میں وزیر داخلہ بہت اشتعال انگیز انداز میں لانگ مارچ سے نپٹنے کی تیاری کی خوفزدہ کرنے والی تفصیلات تسلسل سےسرکاری ابلاغ میں بتاتے رہے۔ اس سے سیاسی ہیجان واشتعال کی کیفیت میں اضافہ ہو رہا تھا، امید ہے وزارت داخلہ کی طرف سے پی ٹی آئی کی اپروچ میں اس مثبت تبدیلی کو مثبت اشارہ ہی خیال کیا جائے گا کہ یہ سب سے زیادہ خودحکومت کے مفاد میں ہے ،جو مئی کے لانگ مارچ کو دبانے اور کچلنے کیلئے عدالتی فیصلے سے پہلے ہی لاہور اور کئی شہروں سے قافلوں کو تشدد سے روکنے پر اور وسیع تر گرفتاریوں اور مقدمات سے عوام میں اپنے جمہوری امیج کو نقصان پہنچا چکی ہے۔ درست ہے کہ عوام کی اجتماعی یادداشت کمزور ہوتی ہے لیکن ٹیکنالوجی کے استعمال نے گزرے واقعات کی حسب ضرورت تکرار مع فوٹیج سے فوری عوامی یاد دہانی کی سکت بہت بڑھا دی ہے اور یہ تو زیادہ عرصے کی بات بھی نہیں جب عالمی وبا اور اس کے بار بار حملوں کے دوران پی ڈی ایم کی جماعتوں ،ن لیگ، پی پی پی اور مولانا فضل الرحمٰن نے یک نہ شد دو شد،مہنگائی کے خلاف اسلام آباد تک ہی لانگ مارچ کئے جس میں حکومت نے کوئی مداخلت نہ کی، اب تو مہنگائی بھی اپنی انتہا پر ہے اور لوگوں کو بخوبی یاد بھی ہے کہ عمران حکومت نے اپوزیشن کے ہر مہنگائی مارچ کومکمل جمہوری مزاج سے ہونے دیا۔جہاں تک پی ٹی آئی کراچی کے رہنما فیصل واوڈا کی چونکا دینے والی پریس کانفرنس کہ ’’لانگ مارچ کے لہولہان اور جان لیوا‘‘ جیسے مندرجات سے مارچ کوسبوتاژ کرنے کی مکمل شعوری، منصوبہ بند کوشش کا واضح پہلو نکلتا ہے، اس پر پارٹی کے فوری، شدید اور مکمل وضاحتی ردعمل سے اس دانستہ یا کسی کو سمجھ نہ آنے والی کوشش خود سبوتاژ ہو گئی ۔انہوں نے ارشد شریف کی شہادت پرخود ساختہ تفتیش اور اس کے خطرناک امکانی فالو اپ کا جو نقشہ کھینچا اور جس طرح اس کو اپنی ہی پارٹی کے لانگ مارچ سے جوڑا، یہ سب مکمل ڈرامائی لگا، تاہم کچھ سیاسی لوگ اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں اب بھی الجھے ہوئے ہیں۔

ایک گزارش پاکستانی سول سوسائٹی کے پوٹینشل سیکشنز سے ہے، کہاں ہیں ہمارےمعیاری تھنک ٹینکس، دانشوروں اور اہل نظر کی تنظیمیں اور سیاسی مذہبی اسکالرز، ریٹائرڈ جج جرنیل اورسینئر و کلا سابق تجربہ کارپارلیمنٹرینز اور ممتاز اور غیر جانبدار سینئر صحافی جو سوشل میڈیا کے ذریعے باہمی ابتدائی رابطوں سے بھی اپنے مشترکہ کردار سے بحران ختم کرنے کی کوئی صورت نکالنے کی ہمت کریں۔اب تو بحرانی پاکستان کی وہ روایت بھی ختم ہو گئی کہ اس سے کہیں کم تر سیاسی بحرانوں میں پاکستان کو بڑے سیاسی عدم استحکام سے بچانے کیلئے ہمارے دوست ممالک کے حکام و سفرا سرگرم ہو جاتے تھے اور بحران ختم کرادیتے تھے۔ اب تو وہ بھی ہمارے رویوں سے پناہ مانگنے لگے ہیں ،اب ہم نے خود ہی کرنا ہے جو کرنا ہے ذمے داران محترم و بااعتبار سینئر سٹیزنز آگے بڑھیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم