163

برطانیہ مشکل میں

برطانیہ میں ایک سابق غلام اقتدار پر براجمان ہو گیا ہے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ جن غلاموں کو گورے کبھی منہ نہیں لگاتے تھے جنھیں اظہار رائے کی آزادی بھی نصیب نہیں تھی بلکہ آزادی کی بات کرنے پر کتنے ہی ہندوستانیوں کو بھیانک سزائیں دی گئیں حتیٰ کہ پھانسی کے پھندوں پر بھی لٹکا دیا گیا۔

آج خود گوروں نے اسی ہندوستان کے ایک سابق غلام کو وزیر اعظم بنا کر اپنے سروں پر بٹھا لیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ گوروں کی پہلے جیسی شان و شوکت بھی نہیں رہی اور دنیا پر غلبہ بھی نہیں رہا۔

 

کہاں ایک وقت تھا کہ ان کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس لیے کہ مشرق سے مغرب تک کئی علاقوں پر ان کی حکومت تھی۔

 

ہندوستان پر انھوں نے پلاسی کی جنگ جیت کر اپنی حکمرانی کا آغاز کیا جو رفتہ رفتہ 1857 تک پورے برصغیر پر قائم ہوگئی تھی۔ سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، جھانسی کی رانی اور بہادر شاہ ظفر جیسے بہادر ہندوستانیوں نے ان کے قدم آگے بڑھنے سے روکنے کی پوری کوشش کی مگر ہمارے اپنے لوگ ان غاصبوں کی طاقت بن گئے۔

 

برصغیر میں انگریزوں کی اصل کامیابیوں میں ہمارے میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ انگریزوں نے جزوی طور پر ڈیڑھ سو سال اور پورے برصغیر پر کل نوے سال حکومت کی تھی یعنی کہ ان کی مکمل حکومت 1857 سے 1947 تک قائم رہی۔ وہ برصغیر پر یوں ہی قابض نہیں ہوئے تھے مغلوں کے دور کی برصغیر کی مثالی ترقی، خوشحالی اور منافع بخش تجارت نے انھیں یہاں آنے کی دعوت دی تھی۔

 

وہ برصغیر میں تاجر بن کر آئے اور پھر اپنی چالاکیوں سے اس ملک کے مالک بن گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز قوم اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی انھوں نے جرمنی کے ہاتھوں اپنے مفادات کے کچلے جانے کی وجہ سے لڑیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اپنی اس جنگ میں انھوں نے پوری دنیا کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اس طرح خود اکیلے ان جنگوں کو لڑنے کے بجائے کئی ممالک کے ذریعے لڑیں اور بالآخر کامیابی حاصل کرلی۔

 

دوسری جنگ عظیم میں اس نے کسی طرح امریکا کو شامل کرلیا تھا مگر روس کو شامل کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ خود ہی اپنے جنگی ہوائی جہازوں پر جرمنی کا نشان لگا کر حملہ کردیا تھا جس پر مشتعل ہو کر اسٹالن نے جرمنی کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی۔

تو پتا چلا کہ یہ قوم بہت ہوشیار ہے اور اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے تو لگتا ہے ایک غلام کو انھوں نے یوں ہی اپنے سروں پر نہیں بٹھا لیا ہے بلکہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے اس غلام کو استعمال کیا ہے۔

 

برطانیہ نے یورپی یونین سے نکلنے کا اعلان بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کیا تھا حالانکہ دوسرے یورپی ممالک نہیں چاہتے تھے کہ برطانیہ ان کا ساتھ چھوڑے اور چلتے چلاتے یورپی یونین کے نظام میں کوئی خلل آئے، مگر برطانوی حکمرانوں کو یورپی یونین سے نکلنے میں نہ جانے کیا حیرت انگیز فائدے نظر آ رہے تھے کہ وہ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے بضد تھے۔ حالانکہ تمام برطانوی عوام اس نظام سے نکلنے کے حق میں نہیں تھے۔

اب یورپی یونین سے باہر آنے کے بعد انھیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یورپی یونین ان کی وجہ سے چل رہی ہے اور انھیں اس کی وجہ سے تسلی بخش ترقی کرنے کا موقع نہیں مل پا رہا ہے مگر اب انھیں پتا چلا کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔

 

یورپی یونین کے نکلنے کے عمل کو برگزٹ “Brexit” نام دیا گیا تھا۔ اس کے لیے برطانوی حکمران اتنے پرجوش تھے کہ اس نے عوام کی مرضی نہ پا کر اس کے لیے عوامی ریفرنڈم تک کرایا تھا جو 23 جون 2016 کو منعقد ہوا تھا۔ اس کا کوئی خاص ہمت افزا نتیجہ نہیں آیا تھا کل 51 فیصد لوگوں نے برگزٹ کے حق میں ووٹ دیے تھے اور باقی کے 49 فیصد نے اس میں حصہ ہی نہیں لیا تھا یا اس کے حق میں ووٹ نہیں دیے تھے۔

اس سے یہ بات واضح ہوگئی تھی برطانیہ کی تقریباً آدھی آبادی یورپی یونین میں برطانیہ کے شامل رہنے کے حق میں تھی۔ برگزٹ کے سلسلے میں سابق وزرائے اعظم کیمرون اور بورس جانسن نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے بعض برطانوی معیشت دانوں کے مشوروں کو بھی گھاس نہیں ڈالی تھی۔ وہ سب یہ واضح کر رہے تھے کہ برگزٹ سے برطانیہ کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوگا ، مگر برطانوی صاحب اقتدار حلقہ یہ سمجھ رہا تھا کہ برگزٹ کے بعد برطانوی معیشت میں چار چاند لگ جائیں گے۔

اس سے تجارت بڑھے گی، پونڈ زیادہ طاقتور ہوگا اور دیگر یورپی ممالک کے لوگوں کا وہاں نوکریوں کی تلاش میں آنا ختم ہو جائے گا۔ اس سے تارکین وطن کی تعداد میں کمی واقع ہوگی۔ اسکاٹ لینڈ کی مقامی حکومت برگزٹ کے سخت خلاف تھی اس نے تو برگزٹ کی صورت میں برطانوی سلطنت سے علیحدہ تک ہونے کی دھمکی دی تھی مگر اس دھمکی کو بھی نظرانداز کردیا گیا تھا اب برگزٹ کے بعد سے برطانیہ کی معاشی حالت انتہائی خراب ہوگئی ہے۔

بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ عام لوگ سخت پریشان ہیں۔کیمرون، بورس جانسن اور لز ٹروس حکومتیں صرف برگزٹ کی وجہ سے جلد گر گئیں۔

لز ٹروس تو صرف 44 دن ہی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہ سکیں اس طرح ان کی وزارت کی مدت برطانیہ میں سب سے کم رہی۔ وزارت سے استعفیٰ انھوں نے خود دیا کسی کے مجبور کرنے پر نہیں دیا جیساکہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ دراصل معاشی حالات اتنے زیادہ بگڑ چکے ہیں کہ انھیں سدھارنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ اب کنزرویٹیو پارٹی کی جانب سے اپنے ایک سینئر ممبر کرشی سونک کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا ہے وہ پہلے ایشیائی ہیں جنھیں یہ منصب عطا ہوا ہے۔

کرشی سونک برطانیہ کے ایک امیر شخص ہیں۔ ان کی بیوی بھارت کے ایک امیر ترین شخص کی بیٹی ہیں۔ کرشی سونک نے وزیر اعظم کا عہدہ بہت مشکل وقت میں سنبھالا ہے تاہم انھوں نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کریں گے اور عوام کے معیار پر پورا اتریں گے۔

تاہم ابھی وہ وزیر اعظم بنے ہی ہیں کہ ان کی بیوی پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ انھوں نے اپنی باہر سے آنے والی آمدنی پر ٹیکس نہیں دیا ہے۔ اس مسئلے پر کرشی سونک کو سخت مشکلات در پیش ہیں۔ انھوں نے برطانوی معیشت کو پٹری پر لانے کی یقین دہانی ضرور کرائی ہے مگر حالات کے ناسازگار ہونے کی وجہ سے ان کا سرخرو ہونا مشکل نظر آتا ہے۔

بہرحال وہ کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں لیکن اتنا تو ضرور ہوا ہے کہ برطانیہ کی تاریخ میں کسی ہندوستانی کو پہلی دفعہ برطانیہ کا وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس طرح اب غلام ہندوستان کا ایک شخص ان کی حکومت کا خود ان کے ہاتھوں وزیر اعظم منتخب ہو گیا ہے۔

کہاں وہ وقت تھا جب ہندوستانیوں کو ان کی سانولی رنگت کی وجہ سے بڑی حقارت سے دیکھا جاتا تھا انھیں گوروں کے کسی کلب میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

ان کلیوں کے دروازوں پر بورڈ آویزاں ہوتا تھا جس پر لکھا ہوتا تھا ’’ہندوستانیوں اور کتوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے‘‘ پاکستانیوں کو کرشی سونک کے وزیر اعظم بننے سے خوشی ہے اس لیے بھی کہ ان کے بزرگوں کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے تھا۔ پاکستانی بھارتیوں کی طرح ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ پاکستان اور بھارت کو ایک نظر سے دیکھیں اور برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کو پھلنے پھولنے میں مدد کریں۔

بشکریہ ایکسپرس