114

پرویز مشرف کے بچپن کا کراچی

زمانہ بدل گیا' وقت بدل گیا' حالات بدل گئے' علاقوں کے چہرے بدل گئے۔ آپ یوں سمجھیں گزرا ہوا وقت اپنے پیچھے بے شمار یادیں چھوڑ گیا۔ یہ 70ء کی دہائی کی ابتدا تھی۔ اسکول کا دور تھا۔ نارتھ ناظم آباد کا علاقہ اپنی تمامتر آرکیٹییکچرل ڈیزائننگ کے اعتبار سے کراچی کی شان بڑھارہا تھا۔ کشادہ شاہراہیں' گرین بیلٹس' سائیڈ لائن سڑکیں' مختلف بلاکس میں تقسیم یہ رہائشی علاقہ دیکھنے کے قابل تھا۔ باہم ملاتی سڑکوں کے درمیان پختہ اور انتہائی منظم انداز سے بنے ہوئے برساتی نالے ہر بلاک میں مسجد' پارک اور میدان یہ کراچی کے بطن سے ابھرنے والی بستی سب کیلئے ایک ماڈل کا درجہ رکھتی تھی۔ اس سے پہلے نسبتاً کم وسائل کے حامل لوگوں کی بستی نیو کراچی آباد ہوچکی تھی۔ نارتھ ناظم آباد اور نیو کراچی کے بیچ میں خاصا فاصلہ تھا اور یہ غیر آباد تھا' جہاں آج کل آپ کو بفرزون اور نارتھ کراچی کی گنجان آبادیاں نظر آئیں گی۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ 60ء کی دہائی کے وسط میں ابھرنے والی نارتھ ناظم آباد کی بستی بہت تیزی سے تعمیراتی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی۔ کیا آپ کو یقین آسکتا ہے کہ حیدری مارکیٹ کی دکانیں 1970ء میں 5 سے 20 ہزار قیمت کی حامل تھیں۔ حیدری مارکیٹ کے سامنے کے علاقے میں زیادہ تر بوہری رہا کرتے تھے۔ ان میں زیادہ تر کاروباری تھے اور یہ ہارڈ ویئر اور تعمیراتی سامان کا کاروبار کرتے تھے۔ یہاں ان کا جماعت خانہ بھی تھا۔ نارتھ ناظم آباد کے علاقے کے ساتھ ساتھ ایک سنسان پہاڑی سلسلہ تھا۔ ایک دن مرحوم زیڈ اے نظامی بتارہے تھے کہ جب یہ علاقہ بتدریج آباد ہورہا تھا۔ میں نے ایک ہائی پاور میٹنگ میں یہ تجویز دی تھی کہ اس پہاڑی سلسلے کو ایک ماڈل تفریح گاہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں خوبصورت ہوٹلیں' ریزارٹ' پارک' بچوں کیلئے پلے لینڈ بنائے جاسکتے ہیں اور اسے مرگلہ ہلز کے طرز پر Develop کیا جاسکتا تھا۔ نظامی صاحب سابق بیورو کریٹ' کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور مایہ ناز انجینئر تھے۔ سوک سینٹر کی عمارت ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں کی ڈیزائننگ میں نظامی صاحب نے اپنا بڑا گرانقدر حصہ ڈالا۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ ایک طویل عرصے تک کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ وہ کراچی میں قائم سر سید انجینئرنگ یونیورسٹی کے بانی چانسلر تھے۔ اس یونیورسٹی سے ہر سال سینکڑوں انجینئر فارغ التحصیل ہورہے ہیں۔ نظامی صاحب تو اس دنیا میں نہیں رہے' لیکن وہ ایک ایسی تعلیمی درسگاہ کی بنیاد رکھ گئے جس سے ہر سال سینکڑوں جوہر قابل پیدا ہورہے ہیں۔ یہاں یہ یاد دلانا ناانصافی ہوگی کہ ہم یہاں حکیم محمد سعید کو یاد نہ کریں' یوں تو حکیم صاحب کی خدمات اور ان کے کئے ہوئے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے' لیکن حکیم صاحب نے اس شہر کے نوجوانوں پر یہ بہت بڑا احسان کیا کہ انہوںنے بحیثیت گرنر سندھ متعدد نجی یونیورسٹیوں کو چارٹر دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ خود وہ ہمدرد یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے۔ مدینۃ الحکمت کی لائبریری کو اگر آپ ملاحظہ کریں تو آپ حیران ہوئے بغیر نہیں رہیں گے۔ دنیا بھر کے علوم کی کتابوں کے لاتعداد نسخے موجود ہیں' لیکن حکیم سعید کا سب سے زیادہ پسندیدہ مضمون ''بچے'' تھے۔ مجھے حکیم صاحب کے ساتھ اپنی وہ ملاقات آج بھی یاد ہے اور ہمیشہ یاد رہے گی جوحکیم صاحب کے مطب میں نہیں دفتر میں ہوئی تھی۔ اس دن حکیم صاحب خلاف معمول تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔ میں نے اس بوجھل پن کی وجہ دریافت کرنے کی ہمت کی تو وہ بڑے دل گرفتہ انداز میں بولے۔ ہم نے اس دکھ سے بھارت چھوڑا تھا کہ وہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی۔ ہم نماز پڑھنے جاتے تھے تو ہندو مسجدوں میں سور چھوڑ دیتے تھے۔ خانہ خدا کے دروازے پر ڈھول پیٹتے تھے۔ بول و براز کی تھیلیاں ہمارے اوپر پھینکتے تھے۔ ہندو شرپسند پچھلی صفوں میں کھڑے نمازیوں کو چھرا گھونپ کر بھاگ جاتے تھے۔ ہم نے سوچا چلو پاکستان چلتے ہیں۔ وہاں کم از کم ہمارے سجدے تو آزاد ہوں گے۔ ہماری مسجدیں' ہماری درگاہیں تو محفوظ ہوں گی' لیکن افسوس آج مسلح گارڈز کے بغیر پاکستان کی مسجدوں میں نماز پڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ یہ کراچی کا بڑا آشوب دور تھا۔ ہر طرف مسجدوں اور مختلف مقامات پر دھماکے ہورہے تھے۔ حکیم صاحب بتانے لگے مجھے میرے بڑے بھائی عبدالحمید دہلی سے لکھتے ہیں۔ سعید واپس آجاؤ۔ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں' یہاں اس وقت کم از کم مسجدیں تو محفوظ ہیں' ان کی آواز اکھڑ گئی۔ میں نے اس عالیشان انسان سے پوچھا' آپ کو یہاں آکر پچھتاوا تو نہیں ہورہا۔ حکیم صاحب کا کہنا تھا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ پاکستان سے مجھے عشق ہے۔آپ آزادی کے بعد دو تین دہائیوں کا سفر دیکھیں۔ ہر ایک کے چہرے پر اپنے وطن کیلئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ کراچی روزگار' خوشحالی اور سنہرے مستقبل کی علامت تھا۔ یہ شہر سب کو خوش آمدید کہہ رہا تھا اور آج تک لوگ اس میں سمائے جارہے ہیں۔ پورے ہندوستان کے سینکڑوں شہروں سے اساتذہ' پروفیسر' ڈاکٹر' انجینئر' حکما' صنعت کار' محنت کش' سرکاری ملازمین کشاں کشاں آرہے تھے۔ جو اس وقت بچے تھے اب ضعیف ہوچکے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ اس شہر نے کس گرم جوشی سے انہیں خوش آمدید کہا تھا۔ نت نئے کھانے تھے' خوشیاں اور خوشیوں کے آنسو تھے۔ قہقہے تھے' سب ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے۔ پورے خلوص اور محبتوں کے ساتھ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی خواہش ہر خاندان کی سوچ کا مرکز تھی۔ 9 سال تک پاکستان پر بلاغیرے شرکت حکومت کرنے والے پرویز مشرف نے کراچی میں اپنی بچپن کی یادوں کو اپنی کتاب ''سب سے پہلے پاکستان'' میں یوں شیئر کی ہیں' وہ لکھتے ہیں۔کراچی ایک قدیم شہر ہے اور ہمارے دوسرے شہروں کی طرح اس کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ اوائل میں یہ بحیرہ عرب کے ساحل پر ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ کراچی آمد کے بعد میرے والد کو جیکب لائنز کی بیرکوں میں ایک لمبی بیرک میں جس میں دو دو کمروں پر مشتمل دس رہائشگاہیں تھیں ۔ایک رہائشگاہ میرے والد کو الاٹ ہوئی۔ بیرک کے ساتھ باورچی خانہ' بغیر فلش کا ٹوائلٹ اور غسل خانہ تھا۔ پوری بیرک کی لمبائی میں ایک طرف برآمدہ تھا جس میں سبز رنگ کی لکڑی کی جعفری لگی ہوئی تھی۔ ہمارے خاندان کے دوسرے بے گھر افراد جن میں قریب اور دور کے چچا' خالائیں اور ان کی اولادیں تھیں۔ ہمارے ساتھ رہنے کیلئے آگے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان دو کمروں میں رہنے والوں کی تعداد اٹھارہ تک ہوگئی' لیکن اتنے کچھے کچھے کی ہم سب خوش تھے۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہماری اس بے آرامی اور تکلیف کو برداشت کرنے کی قوت کی وجہ ہماری قربانی کا جذبہ اور ایک دوسرے کے ساتھ مروت اور فراخدلی تھی جو اس وقت اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔ میرے والد ایک انتہائی ایماندار شخص تھے۔ اگرچہ ہم مالدار نہیں تھے' لیکن اس کے باوجود غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ میری والدہ بھی اپنے رکھ رکھاؤ کے باعث ہمارے گھر میں بااختیار تھیں' لیکن جب غریبوں کو کچھ دینے دلانے کا سوال ہوتا تو میرے والد خاموشی سے اپنی مرضی سے کیا کرتے تھے۔ (جاری ہے)

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز