126

اے خانہ برانداز چمن کچھ تو اِدھر بھی

ہم برسہا برس سے اشہبِ دوراں پر سوار مثل برق سرپٹ دوڑتے چلے جارہے ہیں۔ غالب کے الفاظ مستعار لوں تو’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔‘ منزل اور راستوں کی خبر نہیں مگر پھر بھی فنا کے گھاٹ اُترنے کی خواہش میں نہایت بیتابی سے مسلسل آگے بڑھتے جا تے ہیں ۔ماہرین ماحولیات چار دہائیوں سے چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ تم سب ماحولیاتی تبدیلیوں کے گڑھے میں گرکر اجتماعی خودکشی کرنے والے ہو مگر ہم تو شوقِ کمال میں خوفِ زوال سے ہی بے نیاز ہوچکے ۔اور پھر ان بے دین ،بزدل اور دنیاوی اسباب پر انحصار کرنے والے سائنسدانوں کی باتوں پر کان دھرنے کا کیا فائدہ؟گلیشیئر پگھل رہے ہیں توکیا ہوا،ہم تو سخت لونڈے ہیں ،کسی بات پر نہ پگھلیںگے۔عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے توکیا ؟ہمارے ہاں جذبات کی شدت بھی تو بڑھ رہی ہے۔کسی دن معلوم ہوا کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر برف کے پہاڑ پگھل رہے ہیں۔بحیرہ منجمد شمالی کے گرد روس اور کینیڈا کے شمال میں موجود آرکیٹک سرکل گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سالانہ 12.6فیصد کے حساب سے سکڑ رہا ہے۔یہ برفانی علاقہ جو 1980ء میں 14ملین کلومیٹر پر محیط تھا ،اب صرف 4ملین کلومیٹر باقی رہ گیا ہے۔اس خطے میں پائی جا رہی برفانی حیات جیسا کہ ریچھ اور سفید چیتے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔شمال سے جنوب تک ہر طرف عالمی حدت کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔براعظم انٹار کٹیکا جہاں لگ بھگ ساڑھے تین کلومیٹر تک برف کی دبیز تہہ کی صورت میں کرہ ارض کا 60فیصد میٹھا پانی محفوظ ہے،یہاں بھی سب پانی پانی ہورہا ہے۔تخمینہ لگایا گیا کہ سالانہ 100ملین ٹن برف پگھل رہی ہے اور اگر معاملات اسی حساب سے چلتے رہے تو بہت جلد نیویارک اور شنگھائی جیسے شہر قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔ہم ان باتوں کو کبھی مغربی اقوام کی ایک اور سازش کہہ کر جھٹلادیتے تو کبھی یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے رہے کہ ہنوز دلی دور است۔خطرات اگر حقیقی ہیں بھی تو فی الحال ہم ان مسائل سے کوسوں دور ہیں۔یہ تو ترقی یافتہ ممالک کے چونچلے ہیں ،ہمارا ان سے کیا لینا دینا۔اقوام متحدہ نے صورتحال کی سنگینی کا اِدراک کرتے ہوئے جون 1992ء کو برازیل میں ’’Earth summit‘‘کا انعقاد کیا تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جاسکے۔ دنیا بھر کے 179ممالک کے وفود نے شرکت کی ۔اس کے بعد ہر سال آب وہوا میں تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام ایک کانفرنس ہوتی ہے جسے ’’COP‘‘ یا کانفرنس آف دا پارٹیز کہا جاتا ہے۔گزشتہ برس برمنگھم میں ہونے والی 26ویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا،’’شاید وقت ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے،درجہ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتارہی ہے کہ 8سال بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابل برداشت ہو جائے گی‘‘۔ہم نے اس چتائونی کو خبطی بابے کا اندیشہ ہائے دوردراز سمجھ کر نظر انداز کردیا۔بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے ہورہی تحقیق کے دوران متنبہ کیا جارہا تھا کہ دو موسمی نظام کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔ان میں سے ایک نظام ناقابل برداشت گرمی اور خشک سالی لے کر آتا ہے تو دوسرا مون سون کی غیر معمولی بارشوں کے سبب طغیانی کا باعث بنتا ہے۔مگرہمیں تو عرش ملسیانی بتا گئے’’ وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونی منظر سے .....اس حال میں جینا لازم ہے جس حال میں جینا مشکل ہے ‘‘۔ہم تو اقبال کے شاہین ہیں ،ترنت جواب دے دیا’’مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے...کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں ۔‘‘کچھ ایسے ہی خواب و خیال کی کیف و مستی میں مدہوش تھے کہ 2010ء کا سیلاب آگیا اور میر تقی میر کی آواز کانوں میں گونجتی محسوس ہوئی’’مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔‘‘دریائوں کے پشتے مضبوط کرنے کے بعد شاید عقل کی فصیل میں بڑھتے ہوئے حماقتوں کے شگاف پرکرنے کا خیال بھی آہی جاتا مگر بھلا ہو ان علمائے کرام کا جنہوں نے یہ کہہ کر بھٹکنے سے روک دیا کہ یہ قدرتی آفات تو اللہ کا عذاب بن کر نازل ہوتی ہیں ،ان سے بچنا ہے تو استغفار کرو۔چنانچہ ماحولیاتی ماہرین کی طرف بڑھتے قدم رُک گئے اور ہم دو چار بار تسبیح پڑھنے کے بعد مطمئن ہوگئے۔2022ء میں ایک بار پھر سیلاب آگیا۔اب تو ہم اس ناہنجار سیلاب کے خلاف ڈٹ گئے اور صاف کہہ دیا۔’’وہ (یعنی سیلاب) اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔‘‘لیکن جو اپنی انا ،ضد اور ہٹ دھرمی ترک کرنے کو تیار ہیں ،یہ کالم ان کے لئے ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق جب سے انسان نے توانائی کے حصول کےلئے تیل ،گیس اور کوئلے کا استعمال شروع کیا ہے ،عالمی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں 1.1سینٹی گریڈ اضافہ ہوچکا ہے اور ہم 1.5سینٹی گریڈ کی نفسیاتی حد کو چھونے والے ہیں۔2015ء میں 194ممالک نے پیرس معاہدے پر دستخط کے ذریعے یہ عہد کیا تھا کہ ہم عالمی درجہ حرارت کو 1.5سینٹی گریڈ سے نہیں بڑھنے دیں گے کیونکہ یہ 1.8ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا تو دنیا بھر کے لوگوں کو جان لیوا گرمی اور حبس کا سامنا کرنا پڑے گا۔طے پایا کہ امیر ممالک جو کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہیں وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کو ہر سال 100ارب ڈالر دیا کریں گے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔اب 27ویں ماحولیاتی کانفرنس 6تا18نومبرمصر میں ہورہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنامقدمہ پیش کرتے اور اس کانفرنس کو پاکستان میں منعقد کرواتے مگر اب کم از کم وہاں جاکر دنیا کو سمجھائیں کہ ہم آپ کے کرتوتوں کا خراج دے رہے ہیں،بقول رفیع سودا:

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

بشکریہ جنگ نیوزکالم