189

لیڈر اورعہدے

صاحبوں راقم گذشتہ ستائیس برسوں سے پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہا ہےاس دوران بہت  سے نجی اور سرکاری دونوں طرح کے اداروں میں کام کرنے کے مواقع ملے ،اللہ کی مہربانی۔ستائیس سالہ پیشہ ورانہ تجربے میں اکثر کچھ ایسے تجربات سے سامنا ہوا جن پر عقل دنگ رہ گئی ، کسی مخصوص شعبہ کا سربراہ کسی ایسے شخص کو بنایا گیا جسکے پاس اس شعبے کی بنیادی معلومات بہت محدود تھیں، تعلیمی اسناد تو دور کی بات، تجربہ اگرچہ بہت ضروری ہے پر تعلیمی قابلیت بھی بہت ضروری ہے، وہ تو بھلا ہو بل گیٹس جیسوں کا جنہوں درسگاہوں سے نکالے جانے کے بعد بھی مائکروسافٹ جیسا فقیدالمثال ادارہ بنا کر تعلیم سے دور بھاگتے والوں کو کافی حوصلہ دے دیا،بات ہورہی تھی عہدوں کی کہ اکثر شعبوں کا سربراہ ایک ایسے شخص کو دیکھا گیا ہے جو شاید اس شعبے کی تیکنکی مہارت سے ناواقف تھا اور تمام تکنیکی ماہرین اسکے زیر نگرانی کام کرتے تھے ،تکنیکی مہارت نہ ہونے کے باعث وہ ہرکام دو سے تین تکنیکی ماہرین کے ذریعے چیک کرواتا ہے کہ کام کرنے والے نے ٹھیک کام کیا بھی ہے یا نہیں ۔رہ گئے تکنیکی ماہرین تو ایک عام مسئلہ ان پیشہ ور ماہرین میں دیکھا گیا ہے کہ شاذونادر ہی ایک دوسرے کے کام سے متفق ہوتے ہیں بلکہ نیا آنے والا پیشہ ور دوسرے کے کام میں نقص نکالتا ہے ، مسیحا ایکدوسرے کہ نسخوں سے اختلاف کرتے ہیں ، مالی معمالات کے ماہر بھی کم نہیں ہیں، آپس کا اختلاف  ایک عام سی بات ہے ،معاشی ماہرین میں اکثر ملکی شرح نمو کو لیکر گھنٹوں بحث و مباحثہ جاری و ساری رہتا ہے ۔جبکہ سربراہ سبکی سنکر بعض اوقات جنکے دلائل زیادہ وزنی ہوتے ہیں بھلے تکنیکی لحاظ سے نہ ہوں ، اسکی بنیاد پر فیصلہ کر دیتا  ہے ورنہ زیادہ تر اپنی صوابدید اختیار کرتا ہے ،اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ تکنیکی لحاظ سے غیر سند یافتہ ہوتے ہیں وہ کسی اہم شعبے کے سربراہ کیسے بن جاتے ہیں ،کیا یہ اقربا پروری ہے یا میرٹ کا قتل عام ،یا پھر پیشہ وروں کی پیشہ ورانہ رقابت۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ پیشہ ورانہ رقابت کی وجہ سے اچھے بھلے کام کو دوبارہ پھر سے کرنا پڑتا ہے ،کینوکہ کوئی دوسرا پیشہ ور اسپر اپنا نظریہ پیش کردیتا ہے ، الغرض اس چکر میں وسائل کا  ضیاں بھی ہوتا یے ، شاید کچھ وجہ یہ بھی ہے جسکی وجہ سے غیرتیکنکی لوگ ٹیم لیڈر بن جاتے ہیں ، اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کے غیرتیکنکی لوگوں کی تکنیکی انا بہت کم ہوتی ہے ،یا پھر وہ سخت گیر اور تحکمانہ انداز میں تکنیکی پیشہ ور ماہرین کو قابو کرلیتے ہیں ،اس بات کو انتظامی صلاحیتوں کا نام دے دیا جاتا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا کیا یہ طریقہ صحیح ہے یا نہیں کہ ایک غیرتیکنکی فرد تکنیکی پیشہ وروں کی سربراہی کرے ،مگر  بھئی وژن بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔جیسے کہ ملالہ یوسف زئی ،تعلیم تعلیم کہتی رہی اور نوبل انعام لے گئیں اور فخر مسمات بن گئیں۔پر مسئلہ کا حل کیا ہے تکنیکی پیشہ وروں کو لیڈری عطا کی جائے یا انکو اپنے رویوں میں مزید بہتری لانا ہوگی، رہ گئی بات سیاسی لیڈروں کو چننے کی اس میں لیڈری کے لیے پیشہ ورانہ تیکنکی مہارت تیل لینے چلی جاتی ہے اور وہاں بیانیے یا انکشافات کام آتے ہیں ۔کیونکہ وہاں انتخاب میرٹ پر نہیں ووٹ پر ہوتا ہے۔
اصل ضروری بہتر ذہن سازی کی چاہے ووٹر کا ہوں یا ارباب اختیار  کا کیونکہ معاشی ضروریات سبکی ہیں

بشکریہ اردو کالمز