عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں 1.15سینٹی گریڈ کا خطرناک اضافہ ہو چکا ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں مسلسل گرمی کی شدت بڑھتے بڑھتے ریکارڈ ساز سطح پر پہنچ چکی ہے جس کے باعث نصف سے زائد دنیا میں گرمی کی شدت غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے،عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب سمندر کی سطح بلند ہوئی، بڑے پیمانے پر گلیشئرز پگھل رہے ہیں اور دنیا میں قدرتی آفات کی شدت خطرناک سے خطرناک ترین ہوتی جارہی ہے،پاکستان ،نائیجیریا ،جرمنی ،بلجیئم میں تباہ کن سیلابوں نے جبکہ کینیا ،صومالیہ اور امریکہ میں خشک سالی نے موسمی بگاڑ کے انتہائی مہلک اثرات کو دنیا پر بالکل واضح کردیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ مصر میں جاری اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے ،مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونیوالے اس خصوصی اجلاس کو ؛ہمارا سیارہ خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے ؛ کا عنوان اور COP27 کا نام دیا گیا ہے ،اجلاس میں 120 سے زائد ممالک کے سربراہان یااعلیٰ حکام اور نمائندگان شریک ہیں ،سربراہی اجلاس تو منعقد ہوچکا ہے لیکن شریک ممالک کے نمائندگان کے مختلف اجلاس ،مذاکراتی عمل کا سلسلہ 18نومبر تک جاری رہے گاجس کے بعد اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ سامنے آئے گا ۔
سربراہی اجلاس میں وزیراعظم میاں شہباز شریف سمیت متعدد سربراہان مملکت اور حکومتی رہنمائوں نے خطابات کئے لیکن سب سے اہم خطاب اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوئترس نے کرتے ہوئے دنیا کو اس جانب متوجہ کرنے کی پائیدار کوشش کی اورعالمی رہنمائوں کو بڑے واشگاف الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ،ان کے یہ الفاظ صورتحال کی بالکل درست عکاسی کر رہے ہیں کہ ؛ دنیا جہنم کی آب و ہوا والی شاہراہ پر گامزن ہوچکی ہے اور انسانوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے پیش نظر تعاون کرنے یا مرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا،اس اجلاس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ یا تو موسمیاتی یکجہتی کا ایک معاہدہ ہو گا یا پھر اجتماعی خود کشی کا ایک معاہدہ ہو گا ، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوئترس نے اپنے عالمی کردار کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہوئے نہ صرف اس سنگین صورتحال کی بڑی واضح عکاسی کی ہے بلکہ انہوں نے اس کے حل پر بھی زور دیا ،انہوں نے دنیا کے ترقی یافتہ اور آلودگی پھیلانے والے ممالک پر زور دیا کہ ان غریب ممالک کی مدد کریں جو عالمی درجہ حرارت بڑھانے کی ذمہ دار نہیں لیکن موسمیاتی بگاڑ کے باعث قدرتی آفات اور مسائل کا شکار ہو چکے ہیں ،انہوں نے ان ممالک پر درجہ حرارت میں کمی لانے پر بھی زور دیا ،سربراہی اجلاس کے دوران ترقی پذیر ممالک کی جانب سے بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسے ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونیوالے نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں کو نقصانات کی مد میں رقوم فراہم کی جائیں ، سربراہی اجلاس کے بعد مندوبین کے مابین ہونے والے مذاکرات میں یہ مسئلہ اب سرکاری ایجنڈے پر ہے اور اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سائنس کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی اسٹیٹ آف دی کلائمٹ نے ایک تازہ تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے ،جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2021 میں گرین ہاؤس گیسز کا ارتکاز، سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور تیزابیت نے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں جس سے پاکستان میں گرمی کی شدت بڑھنے کے امکانات بہت زیادہ قوی ہوچکے ہیں ،برطانیہ کے موسمیاتی ادارے نے تازہ ترین تحقیق میں بتایا ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں گرمی کی شدت کے نئے ریکارڈز قائم ہوں گے اوردرجہ حرات نئی سے نئی بلندیوں کوچھو سکتا ہے جس سے آنیوالے حالات بدترین ہوتے جائیں گے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی بڑے پیمانے پراثر انداز ہورہی ہے ،ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کے خطرے کی تازہ ترین عالمی درجہ بندی میں پاکستان پانچویں نمبرسے بھی او پرآچکا ہے،گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں قحط، سیلاب، شدید گرمی کی لہریں، سمندری کٹاؤ، سمندری پانی سے آلودگی، اور گلیشیرز کی جھیلوں کے پھٹنے کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں ،درحقیقت یہ ترقی یافتہ ممالک کی گندگی ہے جس کا خمیازہ اب پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں ۔
اگرچہ عالمی درجہ حرارت کا موجب بننے والی گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر ہمارا جغرافیہ عالمی درجہ حرارت کے بڑھنے سے متاثر ہونیوالے علاقوں میں سرفہرست ہے یہی وجہ ہے کہ ہم سخت گرمی اور خشک سالی کا سامنا کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب مون سون کی شدت میں خطرناک اضافہ ہوچکا ہے ،عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے سمندر کا درجہ حرارت زیادہ ہوا اور پانی کے زیادہ بخارات بنے ، گرم ہوا نے زیادہ نمی جذب کی جس سے مون سون کی بارشیں تباہ کن شکل اختیار کرگئیں ،اس کے علاوہ عالمی حدت میں اضافے نے پاکستان کے گلیشئرز کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے اور ان کے پگھلنے کی رفتار تیز ترہوچکی ہے ،گلیشئرز پگھلنے کے باعث پاکستان میں3ہزار سے زائد جھیلیں معرض وجود میں آچکی ہیں،ان جھیلوں کے اچانک پھٹ جانے کا خطرہ تلوار کی طرح سر پر لٹک رہا ہے ،گلیشئرز سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے لاکھوں لوگوں کو نقصان پہنچنے کے اندیشے بھی سر اٹھائے ہوئے ہیں ۔
2010ء کے تباہ کن سیلاب سے قبل ہی اندازے لگائے جاچکے تھے کہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب پاکستان میں گرمی کی شدت میں اضافے اور سیلابی صورتحال پیداہونے کے خدشات ہیں ،پھر 2010کی سیلابی تباہی نے دنیا بھر کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں کی جانب مرکواز کروائی ،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں اور عالمی ماہرین نے پاکستان کو خبردار کیا کہ پاکستان کو آئندہ اس سے بھی خطرناک موسمی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ،اس کے باوجود ہم نے اس خطرے کو یکسر نظر انداز کردیا اور گزشتہ12سال کے دوران اس خطرے سے نمٹنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ،حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ایک بار پھر ہمیں اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات اب پاکستان کیلئے سکیورٹی رسک بن چکی ہیں اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات پر توجہ نہیں دی جارہی جبکہ حالات متقاضی ہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کو ملکی سلامتی کے خطرہ قرار دیتے ہوئے جنگی بنیادوں پر ٹھوس پالیسی اختیار کرے ،ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر،آبی گزرگاہوں اور ذخائر کی صفائی کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع ہونا ناگزیر ہوچکا ہے ،ڈیموں کی تعمیر کیلئے ترقی یافتہ ممالک سے زر تلافی کا حصول بھی حکومت وقت کا فریضہ ہے جس کیلئے ٹھوس سفارتکاری کی اشد ضرورت ہے ،کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ،ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات،عالمی ماہرین موسمیات اور اداروں کی تجزیاتی رپورٹس ،اقوام متحدہ کا موقف یہ سب کچھ مل کر پاکستان کے مقدمے کو انتہائی مضبوط بناتے ہیں اگر پاکستان کی حکومت اس جانب توجہ دے اور پائیدار اقدامات اٹھائے تویہ بات یقینی ہے کہ ملک غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے بھی چھٹکارا حاصل کرلے گا، آبی ذخائر میں اضافہ ہو گا اور ملک کو بدحالی کے راستے سے نکل کر خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو جائیگا ۔
97