95

امریکہ آقا یا اتحادی

’’امریکیو واپس جائو‘‘

"Yankees Go Back"

ہماری کتنی نسلیں افریقہ، ایشیا میں یہ نعرے بلند کرتیں اور رخصت ہوتی رہیں۔ کتنے ناول لکھے گئے، کتنی نظمیں۔

اب نومبر 2022 میں ہماری حکومت اورمیڈیا نے یہ تسلیم کرلیا کہ پاکستان کے عوام امریکہ کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسی لئے امریکہ مخالفت بیانیے والا لیڈر ملک میں مقبول ہوجاتا ہے۔ عمران خان امریکہ کے خلاف مسلسل بیانات دے رہے تھے۔ اس لئے وہ واہگہ سے گوادر تک لوگوں کے دلوں میں اتر گئے۔ اب ایک برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو کے حوالے سے عمران خان کو امریکہ نواز قرار دے کر انہیں عوام کی نظروں میں گرانے کی مہم شروع کردی گئی ہے کہ وہ یوٹرن لے گئے ہیں۔ امریکہ کے خلاف اپنی بیان بازی پر نادم ہیں۔

پاکستان کی اشرافیہ ہمیشہ امریکہ کو اپنا محبوب قرار دیتی رہی ہے۔عوام کی اکثریت امریکہ سے نالاں رہی ہے۔ اگرچہ ہم نے امریکی گندم بھی پیٹ بھر کھائی اور امریکی خشک دودھ بھی نوش جاں کیا۔ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت ہیری ایس ٹرومین امریکی صدر تھے۔ جب وزیر اعظم لیاقت علی خان اپنے تاریخی دورے پر امریکاگئے تو صدر ٹرومین نے ان کا ایئرپورٹ پر آکراستقبال کیا۔ 1947سے 2022تک آئزن ہاور، کینیڈی، جانسن،نکسن،فورڈ، کارٹر،ریگن، بش سینئر، کلنٹن، بش جونیئر، اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن وائٹ ہائوس کے مکین رہ چکے ہیں۔ ہمارے ہر صدر اور ہر وزیر اعظم کی ترجیحات میں امریکی دورہ شامل رہا ہے۔ امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ہمارے ہاں ہر صدر یا وزیر اعظم نے یہ ظاہر کیا کہ ان کی نوکری پکی ہوگئی ہے۔پھر 1950کی دہائی میں یہ بھی ہوا کہ ایک ریڈی میڈ وزیراعظم محمد علی بوگرہ امریکہ سے ہی بھیجے گئے۔

جنوبی ایشیا کا خطّہ کئی ہزار سال سے دنیا کے امیر ترین ملکوں میںشمار ہوتا رہا ہے۔ قدرتی معدنی وسائل سے ہمیشہ مالا مال ۔ ہیرے جواہرات سے مزین۔ اس لئے یورپ کے قزاقوں کی نظریں اس علاقے پر رہی ہیں۔ پرتگالی، ولندیزی، فرانسیسی اوربیلجیئم والے سب ہی کسی نہ کسی ملک پر قبضہ کرتے رہے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی یہ بڑا خطرناک کھیل Great Game جاری ہے۔ مگر اب برطانیہ اور فرانس وغیرہ کی جگہ امریکہ نے لے لی ہے۔ امریکہ کی بنیادی خواہش یہ رہی ہے کہ اس کی سر زمین پر آتش و آہن کا کھیل نہ ہو۔ یورپ ایشیا میں بے شک خون کے دریا بہتے رہیں۔ واشنگٹن کو وہ فخریہ طور پر عالمی دارُالحکومت قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کا حساس محل وقوع، بھارت، چین، روس، ایران اور افغانستان سے ہمسائیگی امریکہ کے نزدیک ہمیں اہم بناتی ہے۔ اس لئےوہ ہمیں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ نائن الیون کے بعد تو وہ افغانستان میں ہمارا پڑوسی بن گیا۔ 20سال تک وہ یہاں اربوں ڈالر خرچ کرتا رہا۔ مشرقی پاکستان بھی چین کی ہمسائیگی کے باعث بہت اہم رہا اور امریکہ نے اسے بالآخر ایک علیحدہ مملکت بنواکر دم لیا۔ امریکہ کی تاریخ یہ رہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل اور اہداف کے حصول کے لئے انسانی جانوں کے اتلاف کی پروا نہیں کرتا۔ ہم 1947سے امریکہ کے اتحادی ہیں۔ لیکن جب بھی مشکل وقت آیا تو وہ غیر جانبدار بن گیا۔

عمر تو کاٹ دی اس شوخ کی دلداری میں

وقت آیا تو شمارے گئے اغیار میں

1965 میں ہم سیٹو اور سینٹو کے رکن تھے لیکن جنگ چھڑی تو امریکہ نیوٹرل ہوگیا۔ ہماری فوجی امداد بھی بند کردی گئی ، پھر 1971 میں ہم ساتویں امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے۔پھر ہمیں یقین دلایا گیا کہ اگر مغربی پاکستان بھارت کی یلغار سے بچ گیا ہے تو یہ امریکہ کی مہربانی ہے۔ صدر نکسن اگر پاکستان سے محبت کا اظہار نہ کرتے تو اندرا گاندھی مغربی پاکستان کو بھی اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیتی۔

صدر ایوب خان کو Friends Not Masters لکھنا پڑی۔ یہ پاکستان کے عوام اور فوج دونوں کی ترجمانی تھی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ امریکی صدر نکسن سے ملاقات کے نتیجے میں ہی صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تھے لیکن ایٹمی پروگرام اور آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے انہیں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی یہ دھمکی سننا پڑی۔ We will make horrible example out of you۔ ہم تمہیں عبرت ناک مثال بنادیں گے۔ اپریل 1973میں پارلیمنٹ کے اجلاس میںبھٹو صاحب نے کہا،’’ وہ میرے خون کے پیاسے ہیں۔ سفید ہاتھی بہت انتقامی مزاج رکھتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ پہیہ جام ہڑتالیں کون کرواتا ہے۔‘‘ سب نے دیکھا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ 1979 میں اسے مثال بنادیا گیا۔ صدر جنرل ضیاالحق افغانستان میں روس کے خلاف مجاہدین کی جنگ میں ساتھ دینے کے باوجود جب امریکہ کےناپسندیدہ ہوئے تو امریکی سفیر سمیت جہاز حادثے کا شکار کردیئے گئے ۔

دنیا بھر کے تجریہ کاروں کیلئے پاکستان امریکہ تعلقات ایک پیچیدہ معمہ بنے رہتے ہیں۔ امریکی صحافیوں، اسکالرز اور محققین کی کتابیں بھی پاکستان کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیتی ہیں۔ پاکستان کے دردمند ایڈیٹروں، سفارت کاروں اور فوجی افسروں نے ہمیشہ لکھا کہ امریکہ ’ناقابل اعتبار اتحادی‘ ہے۔ 2014سے 2017تک آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے 2008 میں جب بریگیڈیئر تھے تو امریکہ میں وار کالج میں تربیت کے دوران مقالہ تحریر کیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت امریکہ کو ناپسند کرتی ہےاور اسے ناقابلِ اعتبار اتحادی خیال کرتی ہے۔ بھارت کی طرف امریکہ کے جھکائو نے پاکستانیوں میں امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کی ہے۔ یہ بھی لکھا کہ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کراسکتا ہے لیکن امریکہ نے اس خطّے میں قیام امن میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

پاکستانی حکمران تو امریکہ کے لئے ہمیشہ مصلحت سے کام لیتے رہے ہیں لیکن پاکستانی عوام نے امریکہ کے مقابلے میں ہمیشہ چین کو ترجیح دی ہے جو سیاسی جماعت یا لیڈر امریکہ کے خلاف بیانیہ استوار کرے گا وہ بلوچستان، کے پی ،سندھ، پنجاب، گلگت اور آزاد کشمیر کے عوام کی نظروں میں بلند تر رہے گا۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم