132

کمال کی تبدیلی…(2)

دوسرے دن ایوب خان نے قوم سے ایک جذباتی خطاب کیا اور یوں ان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک میں دوسری بار مارشل لاء نافذ کر دیا گیا یحییٰ خان نے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لئے چند دور رس اقدامات ضرور کیے جن میں ’’ون یونٹ کا خاتمہ‘‘اور ’’ون مین ون ووٹ‘‘ جیسے فیصلے تھے۔1970ء کے انتخابات اسی اصول کے تحت ہوئے جن میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 169میں سے 167نشستوں پر کایابی حاصل کر لی جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 82نشستیں حاصل کر کے مغربی حصے میں اکثریت حاصل کر لی سیاسی کشمکش ‘ رسہ کشی‘ غلط انتظامی فیصلوں اور مفادات کے سبب ان نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا۔سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے اور بالآخر پاکستان دولخت ہو گیا یہ ایک عظیم سانحہ تھا۔یحییٰ خان اپنے اقتدار کو مزید آگے بڑھا نہیں سکتے تھے۔جنرل حمید اور جنرل ایس جی ایم پیرزادہ نے آخری کوششیں کیں۔لیکن فوج اور عوام میں عمومی ردعمل کو دیکھتے ہوئے جنرل یحییٰ نے اقتدار بھٹو کو منتقل کرنے میں عافیت جانی۔ اقتدار کی اس منتقلی کے عمل میں جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، جنرل گل حسن کو آرمی چیف بنا دیا گیا۔لیکن بھٹو صاحب نے ان کی مدت ملازمت پوری ہونے سے پہلے ہی انہیں برخاست کر دیا ۔جن حالات میں جنرل گل حسن کو علیحدہ کیا گیا، اس کی کہانی تو طویل ہے لیکن جب تک جنرل ٹکا خان نے فوج کی کمان نہیں سنبھالی، جنرل گل حسن کو لاہور کے گورنر ہائوس میں تحویل میں رکھا گیا اور اس پوری کارروائی کی نگرانی اس وقت کے گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کی جنرل ٹکا خان بھٹو کے انتہائی قریبی اور قابل بھروسہ جنرل تھے۔ اور اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ٹکا خاں پیپلز پارٹی کے ایک سرگرم لیڈر بن گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی بحیثیت چیف تعیناتی خالصتاً وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پسندیدگی اور چوائس تھی ۔ایسا کیا تھا کہ بھٹو صاحب نے سینئر لیفٹیننٹ جنرلز پر جنرل ضیاء کو فوقیت دی تھی، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے محترمہ نصرت بھٹو نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ایک بار بھٹو صاحب ملتان کے دورے پر گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھی۔شام کو اس وقت میں ملتان کور میں تعینات میجر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، بھٹو صاحب کے ساتھ ملاقات میں ضیاء الحق نے کہا کہ وہ بہت عرصے سے ان سے ملاقات کے متمنی تھے۔ وہ ان کے آئیڈیل لیڈر ہیں۔انہوں نے 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کی صدارت کرتے دیکھا جس میں عالم اسلام کے عظیم رہنما شریک تھے، ضیاء الحق نے خاص طور پر سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور لیبیا کے کرنل قذافی سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا، ضیاء الحق نے بھٹو صاحب سے کہا میں اس وقت سے آپ سے بالمشافہ ملاقات کا متمنی تھا اور میری خواہش ہے کہ میں آج رات آپ جیسے عظیم لیڈر کو گارڈ کروں۔بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کا شکریہ ادا کیا اور اسی رات جب بھٹو صاحب کمرے میں آئے ،تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے پاکستان کے آئندہ آرمی چیف کا انتخاب کر لیا ہے، وقت سرکتا رہا، پھر ٹو اسٹار سے تھری اسٹار اور پھر فور سٹار جنرل کی تعیناتی کا وقت آیا تو بھٹو کی چوائس ضیاء الحق ہی تھے۔پھر تاریخ نے دیکھا کہ 5جولائی 1977ء کی درمیانی ایک ملازم نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نیند سے بیدار کر کے بتایا کہ فوج آ گئی ہے، بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو فون کر کے پوچھا یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے، جنرل ضیاء الحق کا جواب تھا، سر میں مجبور تھا ،ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا اور پھر لائن کٹ گئی۔15روز بعد ضیاء الحق نے مری کے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں زیر تحویل بھٹو سے ملاقات کی اور بعد میں بھٹو کی رہائی عمل میں آئی، اس کے چند دن بعد ضیاء الحق نے راولپنڈی میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔جس میں 54سالہ جنرل ضیاء الحق سے ٹیلیگراف کے نمائندے پیٹر گل نے سوال کیا کہ آپ وعدے کے مطابق 90دن میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اگر بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا، پاکستان کے پہلے آرائیں جنرل نے بلا تذبذب کہا کہ میں انتخابات میں منتخب وزیر اعظم کو ایڑھی بجا کر سلیوٹ کروں گا اور شام کی دھندلکوں میں جی ایچ کیو میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کے فیصلے کا انتظار کروں گا، پھر کیا ہوا، یہ تاریخ ہے۔90دن کا سفر گیارہ سال پر اس وقت تک جب جنرل ضیاء الحق 16اگست 1988ء کو بہاولپور کے نزدیک لال کمال بستی میں سی ون 30طیارہ کے حادثے میں اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد یہ ذمہ داری ضیاء الحق کے نائب ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم لیگ کے حصے میں آئی تھی، جنرل اسلم بیگ بتاتے ہیں کہ وہ اس دن جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بہاولپور میں تھے، جب جنرل ضیاء واپسی کے لئے اپنے طیارے کی طرف بڑھ رہے تھے ،انہوں نے دائیں ہاتھ سے امریکی سفیر اور بائیں ہاتھ سے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا پھر ان کی نگاہ میرے طیارے پر پڑی، جو قریب ہی کھڑا تھا انہوں نے یہ کہہ کر میرا ہاتھ چھوڑ دیا کہ آپ تو اپنے طیارے میں جائیں گے ،جنرل بیگ بتاتے ہیں کہ بہاولپور ایئر بیس سے روانہ ہونے کے چند منٹ بعد میرے پائلٹ نے مجھے بتایا کہ اس کا جنرل ضیاء الحق کے طیارے ’’پاکستان ون‘‘ سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے ،میں نے واپس مڑنے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے کہا اور مجھے بتایا گیا کہ طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے میں نے پائلٹ کو راولپنڈی کی طرف سفر جاری رکھنے کی ہدایت کی وہاں پہنچ کر اپنے کمانڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد یہی فیصلہ کیا کہ مارشل لاء نہیں لگایا جائے گا اور جمہوری سفر کو ازسر نو شروع کیا جائے گا،(جاری ہے)

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز