99

سیاسی جماعتوں کی مستقبل کی حکمت عملی؟

اس کالم کی اشاعت تک پاکستان کے نئے آرمی چیف کا نام سامنے آچکا ہوگا یا آئندہ ایک آدھ دن میں سامنے آجائے گا۔ صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کےلئے وزیر اعظم شہباز شریف جو ایڈوائس بھیجیں گے ، وہ اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے اس طرح نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ ختم ہو جائے گا ۔ اس تقرری کو سیاسی تنازعہ بنانے والی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بھی نئے آرمی چیف کی تقرری کو قبول کرنا ہو گا۔ اس قضئیے کے ختم ہونے کے بعد پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کیا ہو گی ؟ یہ پاکستان کی سیاست کا نیا اور اہم سوال ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے مطالعہ سے اب تک یہی حقیقت ثابت ہوئی ہے کہ آرمی چیف چاہے کوئی بھی ہو ، وہ وہی کرے گا ، جو فوج بطور ادارہ چاہے گی ۔ جن سیاسی حکمرانوں نے اپنی مرضی کے آرمی چیف لگائے ، وہ بھی ان سیاسی حکمرانوں کی توقعات پر پورا نہیں اترے ۔ اس کےلئے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد جنرل فرینک والٹر میسروی پاک فوج کے پہلے آرمی چیف بنے۔ پاکستان کے نئے حکمراں اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر نہ کر سکے ۔ چھ ماہ بعد وہ ریٹائر ہوئے تو جنرل ڈگلس گریسی آرمی چیف مقرر ہوئے ۔ کشمیر پر حکومت کی پالیسی پر عمل درآمد سے انکار کے باوجود پاکستان کی سویلین حکومت جنرل گریسی کو نہ ہٹا سکی اور وہ تین برس دو ماہ تک اسی عہدے پر رہے ۔ جنرل گریسی کے بعد حکومت کو اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کرنے کا موقع میسر آیا ۔ یہ موقع آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے کوئی طے شدہ طریقہ کار طے نہ ہونے کی وجہ سے میسر آیا تھا ۔ حکومت نے جنرل گریسی کے تجویز کردہ چار ناموں کو مسترد کر دیا ۔ اس وقت سیکرٹری دفاع سکندر مرزا نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قائل کیا کہ میجر جنرل ایوب خان سیدھا سادہ پروفیشنل سولجر ہے ۔لہٰذا اس کے نام پر غور کیا جائے ۔ سکندر مرزا کی اس تجویز کے پیچھے ان کے اپنے سیاسی مقاصد تھے حالانکہ سنیارٹی لسٹ میں ایوب خان کا دور دور تک نام نہیں تھا ۔ اپریل 1951 ء میں ایوب خان پہلے دیسی کمانڈر انچیف بنے ۔ اس دوران گورنر جنرل بھی تبدیل ہوئے اور وزرائے اعظم بھی بدلتے رہے ۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان کے درمیان کافی عرصے تک انڈر اسٹینڈنگ نہ رہی ۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک حاضر سروس آرمی چیف ایوب خان کو وزیر دفاع کا عہدہ بھی دیا گیا ۔ سکندر مرزا نے خود ایوب خان کے ہاتھوں مارشل لاء لگواکر انہیں ملک کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کردیا ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ سکندر مرزا کے ساتھ کیا ہوا؟

زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان بھی جنرل قمر باجوہ کے ساتھ اپنی انڈر اسٹینڈنگ کو مثالی قرار دیتے تھے ۔ انہوں نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع بھی کی اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں قانون سازی کی ۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی حمایت کی ۔ یہ خبریں بھی چلی ہیں کہ عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے جنرل باجوہ کو تاحیات توسیع دینے کی بھی مبینہ پیشکش کی ۔ پاکستان کے لوگ اپنی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں۔

نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد بھی یہی لگ رہا ہے کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کی پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی تبدیل نہیں ہوگی۔ کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کوئی سیاسی یا معاشی پروگرام نہیں ہے ۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی امکانی سیاسی حکمت عملی یہ ہو گی کہ وہ فوج پر کوئی سیاسی دباو ڈالے بغیر یہ کوشش کریں گی کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے سیاسی دباؤ میں نہ آئے جبکہ عمران خان اپنی سیاسی مقبولیت کی بناء پر یہ مطالبہ اور سیاسی دبائو جاری رکھیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی مخالف سیاسی جماعتوں پر فوری انتخابات کا دباؤ ڈالے کیونکہ عمران خان کا موقف یہ ہے کہ ان کے مخالفین ’’ چور ‘‘ ہیں ، لہذا اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سیاست میں مداخلت کرے اور یہی بات بقول ان کے پاکستان کے قومی مفاد میں ہے ۔

اگر سیاسی جماعتوں کی یہی حکمت عملی جاری رہی ، وہ پاکستان کو موجودہ معاشی ، سیاسی اور سماجی بحران سے نکالنے کے کسی ایجنڈے پر متفق نہ ہوئیں اور اسی طرح مخالفت برائے مخالفت کی سیاست کرتی رہیں تو تمام سیاسی جماعتیں کمزور ہوں گی اور سیاست میں مداخلت کی پالیسی کے باوجود وہ فوج کو دوبارہ سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کریں گی ۔ یہ بات پاکستان کے جمہوری نظام کے لئے نقصان دہ ہو گی ۔ سیاسی جماعتوں کو تمام معاملات آپس کے مذاکرات کے ذریعہ طے کرنا چاہئیں ۔ اگر جمہوری نظام کو کسی قسم کا نقصان ہوا تو وہ سیاسی فریق ذمہ دار ہو گا ، جو مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کرے گا۔ اس وقت پاکستان کی سیاست صرف سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور لڑائی تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کے اکثریتی عوام جبرو استحصال کے ایک ایسے نظام میں جکڑے گئے ہیں ، جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہے ۔ کھیل صرف موجودہ بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاسی بالادستی لڑائی تک محدود نہیں ہے ۔ اس کھیل میں بہت سے دیگر کھلاڑی بھی شامل ہو رہے ہیں ۔ کھینچا تانی والی سیاست کا ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گا ۔ ایسے بھی حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ لوگوں سمیت خود سیاسی جماعتیں بھی یہ لڑائی بھول جائیں گی ۔ نئے آرمی چیف کو وہی کرنا پڑے گا ، جو ادارہ بہتر سمجھے گا ، سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کریں ۔ وہ کسی متفقہ پروگرام پر بھی مل بیٹھ کر بات کریں زیادہ دیر عوام کے مسائل کو نظر انداز کرکے صرف پاور پالیٹکس کا کھیل نہیں چلے گا۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم