212

سب کے لیے قابل قبول فارمولے میں دشواریاں

کالم کے ابتدائیہ ہی میں اعتراف کرنے کو مجبو ر محسوس کر رہا ہوں کہ کسی صحافی کو دیانت داری سے یہ حقیقت ہرگز بیان نہیں کرنا چاہیے کہ اسے حتمی فیصلہ سازوں تک کماحقہ رسائی میسر نہیں۔ کھلے دل سے تسلیم ہوئی ایسی نارسائی آپ کی وقعت گرادیتی ہے۔ غیر تو پہلے ہی آپ کو ”لفافہ“ وغیرہ ٹھہراچکے۔ قریب ترین دوست بھی مگر رحم کھانے سے اکتانے کے بعد آپ کا تمسخر اڑانا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان ”صحافیوں“ سے روابط بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں وہ ”باخبر“ تصور کرتے ہیں۔

گزشتہ چند دنوں سے ہمارے ہاں کسی ”صحافی“ کے ”باخبر“ ہونے کا معیار یہ سوال بن چکا ہے کہ اسے ”تعیناتی“ کے بارے میں کتناعلم ہے۔ مجھ بے وقوف سے یہ حماقت سرزد ہو گئی کہ مخلصانہ عاجزی سے بیان کرنا شروع کر دیا کہ اس ضمن میں مجھے ککھ خبر نہیں۔ ”وہ“ جو سوچ رہے ہوتے ہیں اسے جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اگر آپ اسلام آبا د کلب کے ممبر نہیں تو تگڑے لوگوں کی مہربانی سے وہاں کم از کم ”ہائی ٹی“ کے لمحات میں موجود ہوں۔ اس کے علاوہ گالف اور پولو کلب بھی ہیں۔ ”دو ٹکے کے رپورٹروں“ کے لئے ایسی اشرافیائی کلبوں میں گھسنے کی گنجائش موجود نہیں۔

”ان“ تک رسائی اگر میسر نہ ہو تو موجودہ حکومت کے چند تگڑے لوگوں سے اگر تنہائی میں نہیں تو واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے مسلسل رابطہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں ایک شہر لندن بھی ہے۔ وہاں گزشتہ تین برسوں سے سابق وزیر اعظم نواز شریف خود ساختہ جلاوطنی کے دن بتارہے ہیں۔ ان کی دختر مریم نواز صاحبہ بھی اب ان کے پاس تشریف لے جا چکی ہیں۔

نواز شریف صاحب کے ساتھ تنہائی میں گھنٹوں گزارنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے موصوف کے ذہن کو جان لیا ہے تو وہ میری دانست میں فقط غلط بیانی پر مبنی بڑھک لگائے گا۔ میاں صاحب یقیناً بہت وضع دار اور خوش مزاج شخص ہیں۔ اہم ترین ”خبر“ کی بابت مگر ان کی رائے جاننے کی کوشش کریں تو یہ سوال اٹھاتے ہوئے ”فیصلہ“ آپ کے ”سپرد“ کردیتے ہیں کہ ”کیا ہونا چاہیے؟“ شہباز شریف کے بھی چند پسندیدہ صحافی ہیں۔ ”خبر“ لیکن وہ ان کو دینا بھی پسند نہیں کرتے۔ ”تعیناتی“ کے حوالے سے مسلم لیگ (نون) نے جو ذہن بنارکھا ہے اس کا علم میں مصر ہوں صرف نواز شریف اور ان کے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے کے قابل چند افراد تک محدود ہے۔ نظر بظاہر ان میں سے ایک دو افراد ہمارے کچھ نامور صحافیوں کے بے تکلف دوست بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ ”دوست“ بھی تاہم ”ٹیوے“ ہی لگاسکتے ہیں۔ قیافہ شناسی اپنی جگہ ایک اہم صلاحیت ہے۔ وہ مگر ”خبر“ کا واحد منبع ہو نہیں سکتی۔

مجھ سے حماقت مگر یہ سرزد ہونا شروع ہو گئی کہ نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے ”تعیناتی“ کے حوالے سے ابھرے یاوہ گوئی کے شوروغوغا میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ بڑے نام والے جن ”صحافیوں“ نے اس تناظر میں ”اندر کی بات“ سناکر کئی دنوں سے ہمیں مسحورکر رکھا ہے دھڑلے سے لکھی اور سنائی کہانیوں کے حوالے سے اب درست ثابت نہیں ہورہے۔ ان کے وسیلے سے ہمیں ”خبر“ یہ ملی تھی کہ رواں مہینے کی اٹھارہ تاریخ کو وزارت دفاع سے تعیناتی کے اہل امیدواروں کی فہرست پر مبنی ”سمری“ وزیر اعظم کے دفتر کو موصول ہو جائے گی۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے ایک جید ساتھی نے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ 20 اکتوبر تک تعیناتی کا مسئلہ بخیروخوبی حل ہو جائے گا۔

میں یہ کالم 20 نومبر کی صبح اٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ 19 نومبر کی رات ایک بجے تک مطلوبہ سمری تیار ہی نہیں ہوئی تھی۔ امید اب یہ دلائی جا رہی ہے کہ وہ پیر 21 نومبر کی شام تک تیار ہو جائے گی۔ وزیر عظم اس میں سے اپنی پسند کا تعین کرنے میں ایک یا دو دن لیں گے اور یوں ”بدھ“ کے دن ”کم سدھ“ یعنی فیصلہ ہو جائے گا۔

فیصلہ سازی کے عمل کی ”تاریخیں“ فراہم کرنے کے علاوہ ہمارے چند معتبر صحافیوں نے اپنی اپنی ترجیح کے نام بھی بیان کردیے تھے۔ اپنے ساتھیوں کا تمسخراڑانے کے بجائے میں بہت احترام سے یہ التجا کرنا شروع ہو گیا کہ وزیر اعظم صاحب کو 18 تاریخ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ وہ جلد از جلد وزارت دفاع کو سمری بھیجنے کا حکم صادر فرمائیں اور اسے وصول کرنے کے بعد اپنے فیصلے کا اعلان کردیں۔ تعیناتی کے حوالے سے اپنائی تاخیر وگرنہ کئی الجھنوں کا باعث ہوگی۔ یہ الجھنیں ہمارے ہاں بے ثباتی کے ماحول کو مزید گمبھیر ہوتا دکھائیں گی۔ بے ثباتی کے تاثر کی بدولت چند ٹھوس نتائج ہم نے عملی صورت میں دیکھ بھی لئے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کا 21 نومبر کے لئے طے ہوا دورہ ملتوی کر دیا۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف کی ٹیم بھی پاکستان نہیں آئی ہے۔ اس کے ہمارے ہاں آنے کے بعد ہی پاکستان کو 500 ملین ڈالر کی قسط ادا کرنے کا فیصلہ ہو گا۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہونے کے لئے فرانس کے صدر نے اپنے ملک میں عالمی امدادی اداروں کا اجلاس بھی اس ماہ کے اواخر میں بلارکھا تھا۔ وہ بھی فی الحال مقررہ وقت پر منعقد نہیں ہورہا۔

یہ حقیقت واضح انداز میں نمایاں ہو رہی ہے کہ تعیناتی کے حوالے سے ”سب کے لئے قابل قبول“ دکھتا فارمولا طے کرنے میں دشواریاں نمودار ہو چکی ہیں۔ وزیر اعظم کی مصر سے ”اچانک“ لندن روانگی بھی اس ضمن میں کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ جو ”تاخیر“ دن کی روشنی کی طرح نظر آ رہی ہے وہ عمران خان صاحب کو یہ ثابت کرنے میں ٹھوس مدد فراہم کر رہی ہے کہ وہ ”بھگوڑے اور مفرور“ کو تعیناتی کے ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے نہیں دیں گے۔ نظر بظاہر انہوں نے اپنے جانثاروں کے ہجوم کے ساتھ راولپنڈی تشریف لانا مزید ایک ہفتے تک مؤخر کر دیا ہے۔ 26 نومبر اب نئی تاریخ طے ہوئی ہے۔ یہ تاریخ طے کرنے کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے اس کی بابت غور کرنے کے بجائے یہ باور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ خان صاحب کو کسی نہ کسی صورت رام کر کے ذرا ”ٹھنڈا“ کر دیا گیا ہے۔ تاثر یہ بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی صدر عارف علوی سے جو ملاقات ہوئی اس کے اطمینان بخش نتائج برآمد ہوں گے۔ مذکورہ ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی زبان سے ادا ہوئے کلمات مگر کچھ اور پیغام دیتے سنائی دیے۔ تعیناتی کے ضمن میں قصہ مختصر وزیر اعظم کا ”صوابدیدی اختیار“ میری ناقص رائے میں اب محض آئین کی کتاب میں رقم ہوا ہی نظر آئے گا۔ جسے آپ پڑھ سکتے ہیں مگر قابل عمل نہیں بناسکتے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
بشکریہ نوائے وقت۔

بشکریہ نواےَ وقت