نواز شریف لوٹ رہے ہیں!

حذیفہ رحمٰن

مسلم لیگ ن نے وفاق میں حکومت لینے کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ عمران حکومت کی بدانتظامی اور مہنگائی کی ذمہ داری سے لے کرگزشتہ چار برس کی تمام نااہلیوں کا بوجھ مسلم لیگ ن نے اٹھایا ہےلیکن جن دو وجوہات کی بنا پر مسلم لیگ ن نے یہ سب قربانی دی.

آج ان دونوں مقاصد میں میاں نوازشریف کی پارٹی کامیاب نظر آتی ہے۔جس پاکستان پر ڈیفالٹ کے خطرات منڈلارہے تھے،آج وہ خطرات ٹل چکے ہیں جب کہ افواج پاکستان کے سربراہ کی تعیناتی میں بھی میرٹ کو نہ صرف پیمانہ مقرر کیا گیا بلکہ میرٹ ہوتا ہوا نظر آیا ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ نئے آرمی چیف کے چارج سنبھالنے کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہوگی کیونکہ معاشی استحکام براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔عمومی تاثر تھا کہ شاید ادارے کی موجودہ لیڈر شپ یہ فیصلہ نہ ہونے دے۔

شہباز شریف نے مگرانتہائی مشکل فیصلے کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔آخری وقت تک پی ڈی ایم جماعتیں میاں نوازشریف کو مناتی رہیں کہ اس فیصلے کو تبدیل کرلیں ،مگر نوازشریف اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے ۔

آج سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے۔میاں نوازشریف کی واپسی سے قبل مریم نواز پاکستان

آئیں گی اور تمام انتظامات کو خود سنبھالیں گی۔دسمبر میں میاں نوازشریف کی واپسی کی گرینڈ تیاریوں کا آغاز ہونے جارہا ہے۔مگر میاں نوازشریف کو وطن واپسی پر پہاڑ جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔عدالتیں اور انتقامی کیسز کا سامنا کرنا میاں نوازشریف کے لئے کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ ان سے کبھی گھبرائیں ہیں۔

وطن واپسی پر جو سب سے بڑا چیلنج میاں نوازشریف کا منتظر ہے ،وہ مسلم لیگ ن کی کمزور ہوتی ہوئی ساکھ کو مضبوط کرنا ہے۔یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن میاں نوازشریف ہے۔

گزشتہ چار برسوں کے دوران تنظیمی طور پر مسلم لیگ ن بہت کمزور ہوئی ہے۔خاص طور پر چار ماہ کی پنجاب حکومت کے دوران نظریاتی مسلم لیگیوں کو جس طرح سے نظر انداز کیا گیا ،اس سے پارٹی کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔میاں نوازشریف کے وفادار ساتھیوں کے بجائے پنجاب ایسے لوگوں کے حوالے کیا گیا ،جنہیں خود بھی یاد نہیں ہے کہ انہوں نے آخری الیکشن کس

جماعت کے ٹکٹ پر لڑا تھا اور آئندہ الیکشن کس جماعت کے ٹکٹ پر لڑنا ہے۔خاص طور پر جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ ن ایسے لوگوں کے حوالے کی گئی،جن کا ماضی شاہد ہے کہ انہوں نے کبھی کسی جماعت کے ساتھ وفا نہیں کی۔حالانکہ جنوبی پنجاب کی ہی دس سیٹوں کی وجہ سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔اگر چار ماہ کے اقتدار کے دوران جن لوگوں کے حوالے جنوبی پنجاب کو کیا گیا تھا،وہ اپنی پارٹی کے لوگوں کے ساتھ نامناسب سلوک نہ کرتے تو شاید جو دس ایم پی ایز مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب سے ہاری تھی، یہ تعداد پانچ پر آجاتی۔

جنوبی پنجاب میں تین ڈویژنز ہیں۔ملتان ڈویژن کی بات کریں تو گزشتہ چارسالوں میں سب سے زیادہ قربانیاں سردار عبدالغفار ڈوگر نے دی ہیں۔وہ پورے ملتان ڈویژن میں مسلم لیگ ن کے سب سے طاقتور امیدوار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اس حلقے سے شاہ محمود قریشی کو شکست دیتے ہیں جہاں سے کبھی جاوید ہاشمی نہیں جیت سکے۔

ابھی بھی پی ڈی ایم نے پورے پنجاب سے جو سیٹ سب سے بھاری مارجن سے جیتی ہے،وہ عبدالغفار ڈوگر کی آبائی سیٹ ہے،جہاں انہوں نے میاں نوازشریف کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے روایتی حریف گیلانی صاحبان کی سپورٹ کی۔ایسے حالات میں جب مسلم لیگ ن کو ووٹ مشکل سے پڑ رہا تھا مگر ملتان میں غفار ڈوگر کی سپورٹ سے تیر کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔

پارٹی کی باگ ڈورایسے دیانتدار لوگوں کے حوالے کرنی چاہئےکیونکہ ملتان ایک بڑا شہر ہے ،یہاں پر انتہائی اہم حلقے ہیں،اگر عبدالغفار ڈوگر کو نکال دیں تو ملتان میں مسلم لیگ ن کہیں نظر نہیں آتی۔ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی با ت کریں تو سینیٹر حافظ عبدالکریم نے نامساعد اور کٹھن حالات میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا۔2013میں تاریخ

میں پہلی مرتبہ لغاری خاندان کو ان کی آبائی نشست پر بھاری مارجن سے شکست دی۔گزشتہ چار برسوں میں نیب اور ایف آئی اے کے درجنوں کیسز کا سامنا کیا۔گزشتہ ہفتے بھی پنجاب حکومت نے ان کے بیٹے کو ایسے مقدمے میں گرفتار کیا،کہ ایف آئی آ ر میں ان کا نام ہی شامل نہیں تھا۔جج نے فوری طور پر ان کے بیٹے کو رہا کر دیا۔

اسی طرح سے بہاولپور کی بات کریں تو چوہدری سعود مجید اچھے برے وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں،مگر ایسے مخلص ساتھیوں کو نظر انداز کرکے جب پنجاب میں حکومت ملی توجنوبی پنجاب ناقابلِ بھروسہ لوگوں کے حوالے کردیا گیا۔

اس سے نہ صر ف پارٹی کمزور ہوئی بلکہ وفادار ساتھیوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔وطن واپسی پر میاں نوازشریف نے سب سے پہلے اسی چیلنج سے نپٹنا ہے اور پارٹی کو پورے پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں مضبوط کرنا ہے ۔وگرنہ مسلم لیگ ن کے لئے آئندہ الیکشن جیتنا بہت مشکل ہوگا۔م

بشکریہ روزنامہ آج