154

کب تماشا ختم ہو گا؟

ایک طرف عمران خان ہیں جو قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں، دوسری جانب مولانا فضل الرحمن ہیں جو انتخابات کو ایک سال موخر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ان دو انتہائوں کے بیچ ، کوئی ہے جو توازن اور اعتدال کی بات کر سکے ؟ عمران خان کا مسئلہ آئین قانون ا ور جمہوریت نہیں مجروح انا ہے۔ اور مولانا فضل الرحمن کا تازہ موقف بھی کسی آئینی یا پارلیمانی دلیل سے بے نیاز ہے اور صرف اپنے حریف کے ’ کھنے سینکنے ‘ کی ایک کوشش اور ضد میں رانجھا راضی کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان کو نظر آ رہا ہے کہ ان کے پاس کارکردگی نام کی کوئی چیز نہیں اور امریکی سازش ، مداخلت اور وغیرہ وغیرہ کی بنیاد پر جو پوسٹ ٹروتھ تخلیق کیا گیا ہے اس کا فائدہ تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب فوری انتخابات ہو جائیں۔مولانا کو بھی دکھائی دے رہاہے کہ ’ خزاں کو جانا چاہیے بہار آئے یا نہ آئے ‘ کی بصیرت سے جو اقتدار ملا ہے اس نے ڈھنگ کا کوئی ایک کام ابھی تک نہیں کیا اور اگر ابھی الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ڈی ایم کو عمران خان نے روند کر رکھ دینا ہے۔ عمران خان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ استعفوں کے اس کھیل سے پارلیمانی سیاست کی روح مجروح ہوتی ہے اور سارا نظام تماشا بن جاتا ہے ۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پارلیمان کو مدت پوری کرنی چاہیے ۔ اسی طرح مولانا کا بھی آئین سے کوئی لینا دینا نہیں اور انہیں بھی اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پارلیمان اور حکومت کو مقررہ مدت کے بعد گھر جانا چاہیے ۔ عمران کا مفاد تقاضا کرتا ہے کہ حکومت کو وقت سے پہلے گھر بھیج دیا جائے اور مولانا کا مفاد تقاضا کرتا ہے کہ حکومت مدت ختم ہونے کے بعد بھی ایک سال تک عوام کے سر پر مسلط رہے۔ضد انا اور مفاد کے اس کھیل میں کسی کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اقدار کیا ہوتی ہیں اور روایات کس بلا کا نام ہے۔ اب آگے کا منظر نامہ بھی دیکھ لیجیے۔فرض کریں اس اذیت سے نجات مل جاتی ہے جلد ، وقت پر یا بدیر ، عام انتخابات ہو ہی جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اربوں روپے اس انتخابی عمل میں جھونکنے کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے گا کیا وہ ہارنے والے کو منظور ہو گا؟ عمران خان کا مزاج ہمارے سامنے ہے۔ ان کی دنیا ان کی ذات کے گنبد میں قید ہے۔ فرد سے ادارے تک جو ا ن کا ساتھ دیتا ہے وہ معتبر ہے وہ ساتھ نہیںدیتا اس کو کوئی امان نہیں۔ کیا وہ الیکشن ہار گئے تو اس شکست کو مان لیں گے ؟ ان کے لیے آخر کتنا مشکل ہو گا کہ وہ اس شکست کو امریکہ سے لے کر موریطانیہ تک کسی بھی ملک کی سازش قرار دے کر ایک بار پھر ہیجان کی کیفیت پیدا کر دیں؟اور نہیں تو ساٹھ ستر پنکچر کا ہی شور مچا دیں؟ اور اگر پی ڈی ایم ہار گئی تو کیا مولانا آرام سے اسے تسلیم کر لیں گے اور کیا بلاول سلیکٹڈ کے طعنے کی بجائے نئے وزیر اعظم کو الیکٹڈ تسلیم کر لیں گے؟ جو حربہ عمران نے اقتدار سے الگ ہو کر اپنایا وہی حربہ مولانا پہلے دن سے تجویز کر رہے تھے۔ عمران اقتدار سے محروم ہوئے تو اسمبلی سے مستعفی ہو گئے ،مولانا نے اسمبلیاں چھوڑنے کی تجویز پی ڈی ایم کو شروع میں ہی دے دی تھی۔ اگلے انتخابات میں ان میں سے جو بھی ہارتا ہے کیا ضمانت ہے کہ وہ نتائج کو تسلیم کرے گا؟ الیکشن مروجہ طریقوں پر ہونا ہے۔ ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بغیر ہونا ہے۔ عمران کی شرط واضح ہے کہ شفاف الیکشن کرائے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ کون سا پیمانہ ہے جس الیکشن کو شفاف قرار دیا جائے گا؟ اگر عمران ہار جاتے ہیں اور دھاندلی کی بنیاد پر احتجاج کی کال دے ڈالتے ہیں تو اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ دھاندلی ہوئی کہ نہیں۔ یہی الزام اگر پی ڈی ایم لگاتی ہے تو کیسے طے ہو گا وہ الزام سچا ہے یا جھوٹا۔ صرف یہ کہہ دینا تو شاید شفافیت کا ضامن نہ بن سکے کہ ادارے غیر سیاسی ہو گئے ہیں۔ کیونکہ اداروں کے غیر سیاسی ہو جانے کے بعد کا احوال مونس الہی بیان کر چکے ہیں کہ ان کی کایا پلٹ کیسے ہوئی اور کیسے انہوں نے عمرا ن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔بزم ناز سے جب ایسی خبریں آ رہی ہوں تو آدمی سوچتا تو ہے کہ اب کس کا یقین کیجیے کس کا نہ کیجیے۔ نظام کمزور ہو چکا۔ شفافیت کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہی۔شفافیت کا سرٹیفکیٹ اب قائدین کے ہاتھ میں ہے۔ قائدین نے کہہ دیا دھاندلی ہوئی تو سچ جھوٹ بے معنی ہو جائے گا اور وابستگان اسی بات پر یقین کر لیں گے کہ بالکل دھاندلی ہوئی۔ نوشتہ دیوار ہے کہ جو ہارے گا اس کے نزدیک دھاندلی ہوئی ہو گی۔ شکست خوردہ فریق کیا کرے گا؟ اس تنائو کے ماحول میںکیا وہ شکست تسلیم کر لے گا؟ یا پھر ایک بار پھر وہی کھیل شروع ہو جائے گا۔ احتجاج ، لانگ مارچ ، استعفے ؟ کیا ملکی معیشت اس بات کی متحمل ہو سکتی ہے کہ ہارنے والا گروہ استعفے دے کر چلا جائے ا ور ضمنی الیکشن میں پھر سے حصہ لینے آ جائے؟ کیا نظام اس طرح چل سکتا ہے؟ کیا کوئی انتخابی اصلاحات کی جا سکتی ہیں کہ اس غیر سنجیدگی کے راستے میں کوئی قانونی رکاوٹ کھڑی جائے؟ پارلیمان کے اخراجات دیکھیں تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ پارلیمان کا یومیہ خرچ جو 2017 میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ تھا اب قریب چھ کروڑ ہو چکا ہے۔ یعنی ایوان میں جب معزز اراکین تشریف نہیں لاتے اور کورم پورا نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں کسی کارروائی کے بغیر اجلاس ملتو ی کر دیا جاتا ہے تواس کام میں قوم کے 600لاکھ روپے وہیں کھڑے کھڑے برباد ہو جاتے ہیں۔ جس پارلیمان پر یہ قوم اوسطا ایک دن کا 600 لاکھ خرچ کر رہی ہے اس میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض صاحب ہیں۔انسانی تاریخ میں ایسا قائد حزب اختلاف نہ پہلے کبھی آیا نہ بعد میں تشریف لانے کا کوئی امکان موجود ہے۔میں کتنے ہی حکومتی پارلیمنٹیرین سے یہ سوال پوچھ چکا ہوں کہ وہ کون سے امور ہیں جن پر راجہ ریاض صاحب کو حکومت سے اختلاف ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ حکومتی اراکین کو اس بات کا علم ہی نہیں پارلیمان میں قائد حزب اختلاف کو ان سے اختلاف کس نکتے پر ہے۔ کیا ہی بہتر ہو قائد حزب اختلاف کے لیے اب وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کا عہدہ تخلیق کیا جائے۔ کل بھی چھ سو لاکھ خرچ ہوا اور کل بھی ایوان میں کورم پورا نہیں ہوا۔یہ صوبائی اسمبلیاں، یہ قومی اسمبلی ، یہ صوبائی اسمبلی ، یہ سینیٹ ، جان کی امان ملے تو یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ان کی عملی افادیت کیا ہے؟اقوال زریں تو بہت ہیں ، سوال عملی افادیت کا ہے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز