109

ہم سوچتے رہتے ہیں ،وہ کر گزرتے ہیں

موسمیاتی تبدیلی اور اس کی وجہ بننے والی آلودگی پوری دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے جیسے ملک بس بڑی بڑی کانفرنسز سے خطاب کرتے ہیں اور دنیا اس مسئلے کے حل کے لیے عملی قدم اٹھاتی ہے۔ گذشتہ کالم میں ناروے کے ٹریفک نظام کا ذکر ہو رہا تھا۔نظام کے ساتھ ساتھ یہاں ماحول دوست الیکٹرک گاڑیاں بڑی کامیابی کے ساتھ سسٹم کا حصہ بنا دی گئی ہیں ۔ کاریں ، ٹرام،ٹرین ، سکوٹیاں یہاں تک کہ جزیروں کو ملانے والی بڑی کشتیاں تک بیٹری سے چلتی ہیں۔ گذشتہ چند سال میں بڑی کامیابی سے پیٹرول پر چلنے والی تمام گاڑیوں کو الیکٹرک کارز نے تبدیل کر دیا ہے۔ اس سے پیٹرول کی کھپت کم ہوئی ہے ، ماحول بہتر ہوا اور عوام کی جیب پر معاشی بوجھ بھی کم ہوا ہے۔ گاڑیوں کو چارج کرنے کے لیے بھی پورا سسٹم انسٹال ہو چکاہے۔ گھروں اور اپارٹمنٹس کے باہر جا بجا چارجنگ مشینیں لگی ہیں ، جہاں سرکار کی طرف سے بالکل مفت گاڑی چارج کرنے کی سہولت موجود ہے۔ پارکنگ پلازوں میں بھی ایسی مشینیں نصب ہیں ۔ آپ گاڑی پارک کر کے دفتر یا شاپنگ پہ چلے جائیے واپسی پہ گاڑی چارجڈ ملے گی اور اس پہ آپ کا کوئی خرچ نہیں آئے گا۔ موٹرویز پر کار چارجنگ اسٹیشن یوں بنائے گئے ہیں جیسے ہمارے ہاں پیٹرول یا سی این جی پمپ بنائے جاتے ہیں۔ ان جارجنگ اسٹیشنز پر فاسٹ چارجنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے ،اٹھارہ منٹ میں گاڑی چارج ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں آپ تین سے ساڑھے تین سو کلومیٹر تک مزید سفر کر سکتے ہیں ۔ سڑکوں پر جگہ جگہ آپ کو الیکٹرک سکوٹی پڑی دکھائی دے گی۔ یہ سکوٹی ہمارے سکوٹر جیسی نہیں بلکہ ویسی ہے جیسی ہمارے ہاں بچے کھیل کود کے لیے ایک پائوں سے دھکا دے کر اور دوسرا پائوں اوپر رکھ کے استعمال کرتے ہیں ۔بس فرق یہ ہے کہ وہاں اس کا سائز ذرا سا بڑا ہوتا ہے اور اس میں بیٹری نصب ہوتی ہے۔ آپ موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے ادائیگی کر کے اسے ایکٹو کریں اور ایک یا دونوں پائوں پر کھڑے ہو کر مزے سے اسے استعمال کریں ۔ اپنی منزل پر پہنچ کر وہیں ایک سائیڈ پر چھوڑ دیں جہاں سے کوئی دوسرا اسے لے جائے گا۔ یہ الیکٹرک سکوٹی کم فاصلے کے سفر کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ۔ اگر آپ کو پارکنگ دور ملی اور منزل پر پہنچنے کے لیے دس پندرہ منٹ کی پیدل واک بنتی ہے تو بھی آپ یہ سکوٹی استعمال کر سکتے ہیں ۔ بس مناسب کرایہ ادا کریں اور کہیں بھی لے جا کر اسے چھوڑ دیں ۔ کہیں کہیں اس مقصد کے لیے سائیکلیں بھی کھڑی نظر آتی ہیں ۔ ان سائیکلوں میں بھی ایک چھوٹا سا سوفٹ وئیر انسٹال کیا گیا ہے جو کرائے کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مالک کو اس کی لوکیشن سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ قومیں نظام بنانے سے بنتی ہیں ۔ٹیکس ادا کرتے ہوئے کوئی تکلیف نہیں ہوتی جب جواب میں ریاست آپ کی تمام ذمہ داریاں خود اٹھا لے۔ آپ کسی چھوٹے سے جزیرے پر بھی جا بسے ہیں تو سرکار آپ کو کشتی، جزیرے پر سٹرک، ڈاک کا نظام، بجلی اور صحت کی سہولت دینے کی پابند ہے ۔چاہے اس جزیرے پر آپ اکیلے یا محض چند لوگ ہی کیوں نہ بستے ہوں۔ جب پہلے دن میں نے ہوٹل میں چیک اِن کیا تو حیران ہوا کہ چائے بنانے کی کیتلی ،کپ اور گلاس تو رکھے ہیں مگر پینے کے پانی کی بوتلیں ٹیبل پہ موجود نہیں، فریج کھول کے دیکھا تو پانی وہاں بھی نہیں تھا۔ ریسپشن پہ پانی مانگنے کے لیے کال کی تو کہا گیا کہ باتھ روم کے نلکے سے پی لیجئے۔ میں جواب پہ حیران ہوا اور پریشان بھی۔ ایک مقامی دوست دوسرے کمرے میں مقیم تھا ۔ اسے فون کر کے مسئلہ بیان کیا تو کہنے لگا کہ جی ہاں باتھ روم کے نلکے میں پینے کا پانی دستیاب ہے۔ بتایا گیا کہ پورے ناروے میں ریاست اپنے شہریوں کو نلکے میں پینے کا صاف پانی فراہم کرتی ہے۔ نہانے کے لیے بھی یہی پانی استعمال کیا جاتا ہے پینے کے لیے بھی یہ نہایت موزوں اور خوش ذائقہ تھا۔ اگرچہ طبیعت نہ مانتی تھی مگر جب تک میں وہاں رہا باتھ روم ہی سے گلاس بھر کے پانی پیتا رہااور میرے پیٹ اور معدے نے ذرا بُرا نہ مانا۔تبھی مجھے وہ وقت بھی یاد آیا جب پچھلے سال افغانستان میں مختلف کمپنیوں کامنرل واٹر پینے کے باوجود بیمار ہو گیا تھا اور پیٹ کا مرض ٹھیک ہو کے نہ دیتا تھا۔ ٹرین ، ٹرام اور بڑی کشتی میں سوار ہوتے وقت ہم ٹکٹ خرید کر جیب میں رکھ لیتے ،لیکن ایک بار بھی کسی نے آ کر ٹکٹ دکھانے کا مطالبہ نہ کیا۔ٹکٹ خریدتے وقت ہر شخص کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے دکھانے کی نوبت آنے کے امکانات ایک فیصد سے بھی کم ہیں ۔لیکن اگر کسی نے مانگ لیا اور ٹکٹ جیب سے نہ نکلا تو وہ اگلے کئی مہینے تک پچھتائے گا کہ اس نے ٹکٹ خرید لیا ہوتا تو بہتر تھا۔ہم غیر ملکیوں کو تو شاید اگلی مرتبہ ویزا مانگنے پر ہی بتا دیا جاتا کہ پچھلی بار آپ یہ حرکت فرما کے گئے تھے اس بار کس منہ سے ویزا مانگ رہے ہو۔قانون کا خوف کچھ عرصے میں ایسی پکی عادت ڈالتا ہے کہ خلاف ورزی کا خیال تک نہیں آتا۔ پولیس اسٹیشن شام چھ بجے بند ہو جاتے ہیں ۔ دن بھر بھی ان کے پاس کرنے کا کام کم ہی ہوتا ہے۔ کرائم ہو تو رپورٹ ہو۔ شاید شہر میں اکا دکا چوبیس گھنٹے والے پولیس اسٹیشن بھی موجود ہوں گے لیکن زیادہ تر شام میں تالا لگا کے گھر چلے جاتے ہیں۔ ایک گائوں میں سکول کے قریب ہمیں ایک بس کھڑی نظر آئی،یہ موبائل لائبریری تھی۔بس میں جا کے دیکھا تو اس میں صرف جمہوریت سے متعلق کتابیں دکھائی دیں۔ بس میں ڈیوٹی پر مامور بوڑھی لائبریرین نے بتایا کہ یہ بس سکولوں کے سامنے بچوں میں مطالعے کا رجحان اور مختلف موضوعات سے آگاہی کے مقصد سے کھڑی کی جاتی ہیں۔موضوعات بدلتے رہتے ہیں۔اُس روز جمہوریت موضوع تھا ،کچھ دن کے بعد موضوع بدل کر مختلف عنوان کی کتابیں لیے یہی بس پھر سکولوں کا چکر لگا رہی ہو گی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم صرف سوچتے ہیں اور وہ عمل کرتے ہیں۔

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز