174

خاتون احد (رسول اللہ ﷺ کی ایک شیرنی کا تعارف )

 

بھلا ہو ساحل عدیم کا آج اس کے ایک مختصر سے کلپ کی وجہ سے  میں لمحہ بھر کے لئے میدان احد پہنچ گیا۔۔ میں اس پہاڑی یعنی درہ عنین کے بائیں جانب پتھر پر بیٹھا ہوا ہوں ۔ میرے دائیں جانب وہ تیر انداز صحابہ کرام موجود ہیں ۔۔ اور سامنے میدان احد میں جنگ چند چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں جاری ہے۔ زیادہ تر کفار دفاعی انداز میں مسلمانوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دھول  اور گرد کم ہو رہی ہے۔ میرے دائیں جانب کھڑے تیر انداز نعرہ تکبیر بلند کر رہے ہیں۔۔ اور مال غنیمت میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ  کی آواز کانوں سے ٹکرا رہی ہے کہ مسلمانوں آقاﷺنے فرمایا تھا یہ درہ قطعی نہیں چھوڑنا بھلے تم دیکھو کہ پرندے ہمیں اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔۔ میں نے کَن اَن٘کْھیوں سے دیکْھنے کی کوشش کی تو مجھے  دس مقدس ہیولے یا نور کے گالے  صرف پہاڑ پر دکھائی دئیے۔ شائد جس طرح جبرائیل امین سدرہ المنتہی  پر جا کر خام ہو گئے تھے۔۔ اسی طرح میری روح و مشاہدہ میدان احد کو تو دیکھ سکتا ہے مگر ان انسانیت کی معراج اصحاب نبی کریمﷺ تک روح کی نہ تاب ہے نہ ہی ہمت۔

 

سامنے میدان میں مسلمان  زخمیوں کی مرہم پٹی کی جارہی ہے۔ کئی بیبیاں جن کے ہیولے ہی نظر آ رہے ہیں۔۔ پانی پلانے کا کام سر انجام دے رہی ہیں۔۔ انہی میں ایک جو پانی تو پلا رہی ہیں مگر  ساتھ ہی ساتھ نظروں کو بار بار میدان جنگ کے درمیان کے حصے پر مرکوز کئے ہوئی ہیں۔۔ کالی چادر سر پر اوڑھی ہوئی ہے ۔ اور کمر پر مضبوط کس کر اسی چادر کا پٹا باندھا ہوا ہے۔۔ اس۔ پٹے میں ایک بڑا خنجر لگا رکھا ہے۔۔ اچانک میرے دائیں جانب گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی ۔۔ یہ خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابی جہل اور ان کے ساتھی ہیں جنہوں نے موقع پاتے ہی اس درے پر حملہ کر دیا ہے۔ وہ دس مقدس ہیولے باری باری جاں نثار کرتے جا رہے ہیں۔۔ 

اسکے ساتھ ہی کفار نے میدان جنگ کے درمیانی حصہ پر ایک زور دار حملہ کر دیا ہے۔ شائد یہ پانی پلانے والی بی بی صاحبہ موقع کی نزاکت کو سمجھ گئی ہیں ۔۔ پانی پلاتے پلاتے مشکیزہ پھینکا اور جہاں گرد وغبار اور دھول  بڑھنا شروع ہوئی ہے۔ جہاں خالق کائنات کے محبوب کریمﷺ موجود ہیں ۔۔یہ بی بی  کسی شکار پر حملہ آور ہوتی شیرنی کی طرح دوڑی ہیں ۔۔ دوڑتے ہوئے راستے میں کسی زخمی یا شہید کی تلوار اٹھائی اور اس دھول  کے غبار میں غائب ہو گئیں۔۔ میری روح اس مقدس غبار کے اس پار نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی میری روحانیت کی یہ اوقات ہے۔۔ 

یہ وہ وقت ہے جب نبی کریمﷺ پر کفار حملہ آور ہو گئے اور نبی کریمﷺ کے آس پاس صحابہ موجود نہ تھے۔ یہ بی بی صاحبہ کسی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح کفار پر جھپٹ پڑیں۔۔ کفار کے تیر و تلوار کو اپنے جسم پر روکتے ہوئے 13 شدید زخم جسم پر لگے۔۔ یہاں آنے سے قبل جب ان کا بیٹا ایک کافر کے ہاتھوں شدید زخمی ہو گیا تھا تو ان کی مرہم پٹی کر کے اسے کہا اٹھو بیٹا!! مردوں کی طرح لڑنا ہے۔۔ اور ان کہ پیٹھ تھپتھپا کر دوبارہ جنگ میں بھیجا۔۔ یہاں اس جگہ جب وہ اکیلی  اپنے آقاﷺ اور کفار کے درمیاں چٹان بن کر کھڑی تھیں ۔۔ اور کفار کے وار روک رہیں تھی تو ان کے کانوں سے  آقاﷺ کی آواز ٹکرائی ۔۔ ام عمارہ یہ وہ کافر ہے جس نے تمہارے بیٹے کو زخمی کیا تھا۔۔ ام عمارہ اس کافر پر جھپٹی اس کی ٹانگ پر وار کر کے گھوڑے سے گرایا اور اسے جہنم واصل کر دیا۔ تو حضور ﷺ خوش ہوکر فرماتے ہیں: ’’امِ عمارہ تم نے بدلہ لے ہی لیا۔‘‘  ۔۔ اتنے میں ابن قمیئہ جو کہ کفار کا ایک طاقتور جنگجو تھا ۔ اور آقاﷺ کے قتل کرنے کی نیت سے جنگ مین شامل ہوا تھا،جب درّاتا ہوا آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گیاتو اُمّ عمارہ نے بڑھ کر روکا۔ اس نے وار کیا جسے ام عمارہ نے روکا چنانچہ کندھے پر زخم آیا اور غار پڑ گیا، انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے کارگر نہ ہوئی۔ ام عمارہ نے اس کے گھوڑے پر وار کیا جس سے اس کا گھوڑا بدک گیا۔۔اِسی اثنا آنحضرتﷺ کے پاس چند صحابہؓ پہنچ چُکے تھے۔ ام عمارہ کے گہرے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ حضورﷺ نے باآوازِ بلند ان کے بیٹے سے فرمایا ’’اے اُمّ ِ عُمارہ کے فرزند! اپنی والدہ کی خبر لو۔‘‘اِس پر بیٹا دوڑتا ہوا ان کی طرف آیا اور مرہم پٹی کی۔‘‘

 ابن قیمہ کے تلوار کی ضرب آقاﷺ کے خود  پاک پر لگی ۔۔ اور یہ کافر بھاگ کر اپنی فوج میں واپس چلا گیا۔۔ رسول اللہﷺ نے حضرت اُمّ ِ عُمارہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا’’آج اُمّ ِ عُمارہ نے سب بہادروں سے زیادہ بہادری دِکھائی ،حضور علیہ السلام نے انکی جانثاری اورحمیت اسلام کو دیکھ کر فرمایا: ”من یطیق ماتطیقین یا اُم عمارہ۔ اے اُم عمارہ! جتنی طاقت تجھ میں ہے وہ اورکسی میں کہاں ہوگی؟“  اور ام عمارہ کو "خاتون احد" کا لقب عطا فرمایا ۔۔۔

 ۔‘‘ حضرت عبداللہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ اُحد کے دن میَں نے اُمّ ِ عُمارہؓ کو اپنے دائیں، بائیں لڑتے ہوئے پایا۔ اللہ تعالیٰ اِس خاندان پر اپنا رحم فرمائے۔‘‘ میری والدہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ! دُعا فرما دیجیے کہ ہمیں جنّت میں آپﷺ کی رفاقت نصیب ہو۔‘‘ اِس پر آپﷺ نے دُعا فرمائی’’ اے اللہ! انہیں جنّت میں میرے رفقاء میں شامل فرما دے۔‘‘ اُمّ ِ عُمارہؓ نے کہا’’ اب مجھے دنیا میں کسی بھی مصیبت کی پروا نہیں۔

ان کا مکمل نام نسیبہ بنت کعب ہے،اور ام عمارہ کے نام سے مشہور ہوئیں۔قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے تھیں۔ بنو نجار وہ قبیلہ ہے جسے اپنے دادا ابو مطلب کے ننہال ہونے کی وجہ سے آقاﷺنے اپنا ننہال قرار فرمایا۔بیعتِ عقبہ میں 73 مرد اور دو عورتیں شامل تھیں، اُمّ عمارہ کا بھی انہی میں شمار ہوتا ہے۔ یعنی انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔۔ اور بیعت عقبہ کے دن جو آقاﷺ کی حفاظت اور ناموس کے تحفظ کا جو وعدہ کیا تھا ۔۔ آپ اور آپ کے خاندان نے جان کی بازی لگا کر اس بیعت کی پاسداری فرمائی۔ 

ناموس رسالت پر سب سے پہلے قربان ہونے والے صحابی حضرت  حبیب بن زید رضی اللہ عنہ  ام عمارہ کے ہی بیٹے تھے۔ جب نبی کریمﷺ نے جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے نام خط لکھا کہ وہ تائب ہو جائے ،آپ کریمﷺ نے پوچھا یہ خط کون لے کر جائے گا۔۔ تو حضرت حبیب جو مدینہ میں چھابڑی  لگایا کرتے تھے اور دبلے پتلی سی جسامت رکھتے تھے کھجور تناول فرما رہے تھے۔۔ جلدی سے آٹھ کھڑے ہوئے اور اتنی جلدی میں کہا کہ " حضور میں لے کر جاوں گا " کہ کھجور کے ذرے منہ سے نکل کر صحابہ کرام پر پڑے۔ صحابہ نے کہا پہلے کھجور تو کھا لو تو فرمانے لگے کہ اتنی دیر میں اگر حضور نے کسی اور کو منتخب کر لیا تو میں اس نعمت سے محروم ہو جاوں گا۔۔ جب خط مسیلمہ کے دربار میں پہنچایا تو اس نے غصہ میں آکر حضرت حبیب کو قید کر لیا ،مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو کہا کیا: تم گواہی دیتے ہو کہ محمدؐ خدا کے رسول ہیں؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا کہ ہاں۔ مسیلمہ نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی خدا کا رسول ہوں؟

حضرت حبیبؓ نے فرمایا کہ میں بہرا ہوں، تیری یہ بات نہیں سن سکتا۔

مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا۔ وہ یہی جواب دیتے رہے۔

مسیلمہ آپؓ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا، حتیٰ کہ حبیب بن زیدؓ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ ان کو شہید کر دیا گیا۔

 

اس شہادت کی خبر جب مدینہ پہنچی تو حضرت ام عمارہ نے اپنے ہونٹ صبر سے بینچ لئے اور خاموش ہو گئیں۔۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ یمامہ ہوئی جو مسیلمہ کذاب کے خلاف تھی۔ ژرف ام عمارہ نے اپنے فرزند عبداللہ کو ساتھ لیا اور ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں برچھی سجا کر جنگ میں بطور مجاہد شریک ہوئیں اس وقت آپ کی عمر 60 سال تھی۔آپ نے قسم کھائی کہ یا تو مسیلمہ کو قتل کریں گی اور یا اپنی جان دے دیں گی ۔۔ جنگ کے دوران آپ مسیلمہ کے قریب پہنچ گئیں اور برچھی سے حملہ کیا۔۔ مسیلمہ کے سپاہیوں نے دفاع کیا جس میں ام عمارہ کا ہاتھ کلائی سے کٹ گیا۔۔ اسی دوران وحشی کے نیزے اور آپ کے بیٹے عبداللہ کی تلوار کے وار نے مسیلمہ کو جہنم واصل کیا۔۔ 

اس جنگ کے بعد آپ کا دست مبارک ضائع ہو گیا اور جب تک آپ کا زخم بھرا نہیں اسلامی سپاہ کے جرنیل حضرت خالد بن ولید  آپ کی خود تیمار داری فرماتے رہے۔۔ آپ اس بات سے اتنی خوش ہوئیں کہ ہر ایک کو بتایا کہ حضرت خالد بن ولید  نے بہت محبت سے ان کا خیال رکھا۔۔ 

آپ نے خیبر ،فتح مکہ اور حدیبیہ و حنین  میں مردانہ وار شرکت فرمائی اور بوقت وفات آپ کے جسم مبارک پر 30 سے زائد گہرے زخموں کے نشان تھے۔۔ آپ کا وصال حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے دور میں  ہوا جنت البقیع شریف میں آپ کو دفن کیا گیا ۔ 

 

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجْوَر کی ہے۔۔

 

 واللہ اعلم بالصواب 

*( اس مضمون  کی تیاری میں حضرت ام عمارہ ان کے خاندان پر لکھے گئے مختلف مضامین سے مواد حاصل کیا گیا ہے۔۔ نیز حیات صحابہ کتاب سے بھی استفادہ حاصل کیا گیا ہے)

 

بشکریہ اردو کالمز