155

تم بھی آجاؤ!

معیشت کے ماہرین بتا رہے ہیں کہ ہماری معاشی صورتحال بہت خراب ہے ،ایک معاشی ماہر بتا رہے تھے کہ اسٹیٹ بنک کے پاس ڈالر نہیں رہے، خانزادہ کے پروگرام میں بھی معیشت کی خراب صورتحال کے چرچے ہیں۔کوئی یہ بتا رہا ہے کہ ایل سیز نہیں کھل رہیں، بنکوں اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں بہت بڑا فرق آ چکا ہے۔ہمارے لئے جو نجات دہندہ ڈھونڈے گئے تھے وہ تو دھول اڑاتے پھر رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ جسے بہت بڑا معاشی جادوگر بنا کر پیش کیا گیا تھا اس کی ساری ہیرا پھیریاں ناکام ہو گئی ہیں۔پچھلے آٹھ مہینوں سے جو دو ماہر وزرائے خزانہ بنائے گئے، وہ دونوں ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔پتہ نہیں ان کو لانے والے کیا سوچ رہے ہیں، قوم تو اچھا نہیں سوچ رہی، پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام کے علاوہ بد ترین معاشی عدم استحکام کا شکار ہے ۔بدقسمتی سے معاشی جادوگر اب بھی لوگوں کو امداد کے گورکھ دھندے کے ذریعے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے،حالات بہت خراب ہیں۔ آپ تاجروں سے بے شک نہ پوچھیں کیونکہ تاجر سیاسی ہو سکتے ہیں حالانکہ ان کی درآمدات اور برآمدات رُک چکی ہیں، آپ عام آدمی سے بھی نہ پوچھیں کیونکہ وہ بھی سیاسی ہو سکتا ہے مگر سرکاری ملازمین تو سیاسی نہیں ہو سکتے اور پاکستانی سفارت خانوں اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے لوگ تو بالکل بھی سیاسی نہیں ہو سکتے ۔ہماری معاشی حالت اس قدر خراب ہے کہ ہمارے سفارتخانوں میں تنخواہوں کی ادائیگی پچھلے چند مہینوں سے رُکی ہوئی ہے۔سب سے زیادہ تکلیف دہ بات جو ان سفارتخانوں میں درد سر بنی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ان سفارتخانوں نے جو مقامی عملہ رکھا ہوتا ہے‘ وہ تنخواہ نہ ملنے کے سبب نوکری چھوڑ کر جا رہا ہے، اب یہ خبریں ٹی وی چینلز کی زینت بن چکی ہیں۔ میں تو سادہ سا بندہ ہوں مجھے زیادہ معلومات نہیں ہیں، بس میں نے اپنے خاندان کے جو لوگ سرکاری ملازمتیں کرتے ہیں، ان سے پوچھا ہے کہ انہیں تنخواہیں مل گئی ہیں یا نہیں تو سب کا جواب نفی میں تھا۔شاید میں یہ بھی نہ پوچھتا مگر یہ نوبت اس لئے آئی کہ ایک تو ٹی وی چینلز پر یہ خبریں آرہی تھیں پھر میرے محلے کے دکاندار نے بتایا کہ فلاں لیڈی ڈاکٹر ایک بہت بڑے وفاقی اسپتال میں کام کرتی ہیں، اب وہ مختلف چیزیں کلو کی بجائے پائو کے حساب سے خرید رہی ہیں، انہیں تنخواہ نہیں مل رہی، ان کے بچے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں،ا سکول والوں نے بھی انہیں کہہ دیا ہے کہ اگر فیس نہیں ہے تو اپنے بچے بھی لے جائو۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس صورتحال میں کیا کریں؟وہ بچوں کو کیسے پڑھائیں، بجلی اور گیس کے بل کہاں سے ادا کریں اور پھر اپنے خاندان کے لوگوں کو کیسے پالیں؟ ہمارے گھر میں جو مرد اور خواتین ملازمین ہیں، میں ان سے مہنگائی سے متعلق پوچھتا رہتا ہوں، اس سے مجھے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں عام لوگوں کی صورتِ حال کیا ہے کیونکہ جب ہم باہر خاص لوگوں میں بیٹھتے ہیں تو وہ کچھ اور ہی بتاتے ہیں،وہ عام لوگوں حالات سے آگاہ ہی نہیں ہوتے، انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ 95فیصد پاکستانیوں کے اکائونٹ میں ایک لاکھ روپیہ بھی نہیں ہے، دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے۔ ویسے اس کا انجام بڑا بھیانک ہے، کاش کسی کا انجام کی طرف بھی دھیان جائے ، حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ذاتی فائدوں کے علاوہ دوسری کوئی سوچ ہی نہیں آ رہی، کسی کو ملک کا کوئی خیال ہی نہیں، آرزوئوں کا قتل ہو رہا ہے، خواہشیں حسرتوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور حکمرا اپنی ذات سے آگے کا سوچتے ہی نہیں ۔ایک حکومتی مشیر دو ہفتے پہلے پریس کانفرنس میں بتا رہے تھے کہ’’ صرف کچھ فیصد انڈسٹری چل رہی ہے‘‘ اب تو شاید وہ بھی بند ہو چکی ہو، حالات پتہ نہیں کدھر جا رہے ہیں؟ ان تمام خوفناک خبروں کے درمیان ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں معافی کا دروازہ کھلا ہوا ہے، آج کل ہر دن دوچار خبریں ایسی ملتی ہیں کہ کچھ لوگوں کے دل خوش ہو جاتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ آج فلاں کی ضمانت ہو گئی ، آج فلاں کا کیس ختم ہوگیا، فلاں فلاں مقدمات میں ادارے پیروی نہیں کریں گے۔ میرے خیال میں معافی کے اس دروازے سے تمام چوروں، ڈاکوئوں اور قاتلوں کو گزرنا چاہئے۔ لہٰذا میرے علاقے کے جتنے قاتل اور ڈاکو محض قانون کے خوف سے ملک سے بھاگ گئے تھے، سزائوں کا ڈر انہیں گھر آنے سے روکتا تھا، میری ان سے درخواست ہے کہ آپ پاکستان آجائیں، آج کل پاکستان میں ملزموں اور مجرموں کے لئے دن اچھے ہیں، میری کالے ڈاکو،الیاسے قاتل اور منے فراڈیئے سے بھی درخواست ہے کہ یار تم بھی آ جائو، آج کل تمہارے لئے موسم بڑا سازگار ہے ۔ بقول وصی شاہ ؎ زندہ ہوں آکے دیکھ بکھر تو نہیں گیا میں تیری بے وفائی سے مر تو نہیں گیا

بشکریہ جنگ نیوزکالم