126

سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے اقدامات!

پاکستان میں دسمبر اور جنوری میں سخت سردی پڑتی ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے ابھی تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جا سکے۔ متاثرین اب بھی کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔ ایک طرف غربت ہے تو دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری ، ایسے حالات میں غریب عوام کے ’’ہمدرد ‘‘حکمرانوں کی خبریں سامنے آتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مریم نواز کے چالیس لاکھ کے پرس کے چرچے ابھی باقی تھے کہ بلاول بھٹو زرداری کے آٹھ لاکھ کے جوتوں کی خبر سامنے آئی ہے۔ یہ جوتے پہننے والی بات نہیں بلکہ پاکستان کے غریب عوام کو جوتے مارنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے حکمران نام غریبوں کا لیتے ہیں اور غربت کے خاتمے کے نام پر ووٹ لیکر اقتدار حاصل کرتے ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد جاگیر دار سیاستدان ملک کو اپنی جاگیر اور ملک کے بائیس کروڑ غریب عوام کو اپنی رعایا سمجھ لیتے ہیں۔ سرمایہ دار اور صنعت کار سیاستدان ملک کو اپنی فیکٹری اور عوام کو فیکٹری ملازمین جان لیتے ہیں۔ جو سلوک غریب عوام سے ہو رہا ہے اور جس طرح سیلاب متاثرین ابتر حالات میں شب و روز بسر کر رہے ہیں تو میاں نواز شریف ، آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے عمران خان سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ سیلاب متاثرین کی کیا مدد ہوئی؟۔ دو صوبوں کی حکومت کے علاوہ سیلاب متاثرین کیلئے جو ٹیلی تھون منعقد کی گئیں اور اربوں روپے حاصل ہوئے ان سے متاثرین کو کیا ملا؟۔ حکمرانوں نے ملک کو بیگار کیمپ سمجھا ہوا ہے حالانکہ پاکستان جیسا زرخیز ترین خطہ دنیا میں شاید ہی کہیں موجود ہو۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ اناج کا مرکز ہے، پورے ملک کے ساتھ ساتھ افغانستان و دیگر ہمسایہ ممالک کو بھی آٹا یہاںسے جاتا ہے وسیب پر توجہ کی ضرورت ہے اگر وسیب کی زراعت کو ترقی دی جائے اور زراعت پر مبنی انڈسٹری قائم کی جائے اور تو پاکستان ہر طرح کی خوراک میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وسیب کے کسان جو کہ اس امید پر تھے کہ اس سال فصل کی پیداوار اچھی ہو گی مگر ساری امیدیں خاک میں مل گئیں، بارشوں اور سیلاب سے بہت نقصان ہو ا، اس سے پہلے آم کے باغات کو بہت نقصان ہوا۔ لمپی سکن کی بیماری نے مار دیا، وسیب کا کاشتکار معاشی طور پر تباہ و برباد ہو چکا ہے مگر حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ہوئی ، اگر ہم وسیب میں غذائی ضروریات کو دیکھتے ہیں، فصل کی پیداوار کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ فصل کی کٹائی سے پہلے بارش کی شدید کمی اور اچانک سے گرم ہوتے موسم نے کسانوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ وسیب کے ساتھ ساتھ سندھ میں اب بھی صورتحال خراب ہے، دریائے سندھ کے کنارے آبادیوں میں 8 فٹ تک پانی جمع ہے، اس طرح ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، بلوچستان میں بھی بہت نقصان ہوا ، خیبرپختونخواہ کے علاقوں کا نقصان کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ٹانک، ڈی آئی خان، تونسہ، ڈیرہ غازیخان اور راجن پور روجھان تک رودکوہی سیلاب نے تباہ کیا جبکہ دوسرے علاقوں میں بارشوں نے فصلیں پہلے ہی تباہ کیں۔ نئی فصل کی کاشت کیلئے بھی مسائل ہیں کہ ابھی تک پانی کھڑا ہے ، بہت سے علاقوں کی زمینیں سیم تھور کا شکار بھی ہوئی ہیں مگر حکومت کی توجہ سے لوگ ابھی تک محروم ہیں۔ ملک کے تمام سیلاب متاثرین خصوصاً وسیب کے متاثرین صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی توجہ کی منتظر ہیں ۔ وسیب کا آج بھی کوئی پرسان حال نہیں ، وسیب میں کوئی ایک بھی ایسا جاگیر دار یا سرمایہ دار پیدا نہیں ہوا جو عوامی خدمت سے سرشار ہواورعوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے۔ کسی جاگیردار اور کسی سرمایہ دار نے کوئی ہسپتال ، سکول یا کالج نہیں بنوایا اور نہ ہی وسیب کی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لئے کوئی ادارے بنائے ہیں، ان حالات کو دیکھ کر سخت مایوسی ہوتی ہے، یہ جاگیردار اور سرمایہ دار صرف اپنی ایک رات کی عیاشی کم کر کے غریبوں کی فلاح کیلئے کام کریں تو بہت زیادہ اچھے نتائج سامنے آ سکتے ہیں، ترقیاتی یافتہ صنعتی ممالک کو دیکھتے ہیں تو وہاں سے بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا ، یہ ٹھیک ہے کہ ان ممالک نے اپنے ملکوں کو فلاحی ریاستوں میں تبدیل کر دیا ہے مگر دنیا کے ترقی پذیر ممالک جن کا وہ مختلف بہانوں سے خون نچوڑ رہے ہیں ان کے لئے انہوں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا، حالانکہ پاکستان میں آنے والا موجودہ سیلاب انہی صنعتی اور سرمایہ دار ملکوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے، نہ جانے کب غریب کو انصاف ملے گا۔ اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلئے یو این کی امداد ختم ہونے کا خدشہ ہے، جمعرات کو سیلاب بحالی پروگرام کے حوالے سے مشترکہ پریس بریفنگ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین ریزیڈینٹ کوآرڈینیٹر جولین ہارنیز نے کہا کہ عالمی ادارے کی جانب سے نظرثانی شدہ فلڈز رسپانس پلان کے تحت 816 ملین امریکی ڈالر کی اپیل کی گئی تھی جبکہ اقوام متحدہ اور متعلقہ ایجنسیوں کو 262 ملین ڈالرز موصول ہوئے ہیں جو کہ امداد کا صرف 32.1 فیصد ہے، سیلاب بحالی کے لئے ہمارے پاس فنڈز 15 جنوری کو ختم ہو جائیں گے۔ بلاشبہ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں پاکستان کو کم ہنگامی امداد ملنا تشویشناک ہے، حکومتِ پاکستان اور فلاحی اداروں نے اس سال سیلاب سے برپا ہونے والی بے پناہ تباہی کے ردعمل میں تھوڑا کام کیا ہے مگر محدود فنڈنگ کی وجہ سے تمام ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے اگر بڑے پیمانے پر فنڈنگ نہ ہوئی تو متاثرہ عوام کیلئے جاری امدادی سرگرمیاں وقت سے پہلے ہی معطل ہونے کا خدشہ ہے۔امدادی سرگرمیوں کے تسلسل کیلئے بڑے پیمانے پر عالمی فنڈنگ درکار ہے، جنوری کے بعد صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ حکمران اور سیاستدان خدارا قوم پر رحم کریں، کرسی اور اقتدار کی جنگ ختم کر کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے اقدامات کریں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز