118

ہمارا ’’مَین آف دی ایئر‘‘ کون؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اکثریتی عوام کو بے روزگاری، کمر توڑ مہنگائی اورمایوسیوں کے بے رحم بلڈوزر سے کچلتا ہُوا 2022کا سال موت کے گھاٹ اُتر چکا ہے۔ آج نئے سال 2023 کا دوسرا دن ہے۔ یہ دن بھی سالِ گزشتہ کے ہر دن کی طرح مایوسیوں ، نااُمیدیوں اور وساوس و خدشات سے مملو و معمور ہے۔ نئے سال میں بھی سالِ گزشتہ کی مانند اُمید و کامیابی اور خوشحالی کا کوئی چراغ روشن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ گزرے سال کے9ماہ کے دوران جس طرح اتحادی حکومت اور اس کے وزیر اعظم، شہباز شریف، ملک و قوم کو کوئی کامیابی اور مسرت نہیں دے سکے ہیں۔ نئے سال کے طلوع ہونے والے سورج میں بھی یہ حکومت ملک اور عوام کے لیے خوشی اور خوشحالی نہیں دے سکے گی کہ نیا سال اِس حالت میں طلوع ہُواہے کہ وزیر اعظم صاحب اپنی مالی ومعاشی بے بسی اور بے کسی کا کھلم کھلا اظہار یوں کر رہے ہیں ’’ اقتدار سنبھالا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں ۔‘‘ موصوف کو یہ احساس اُس وقت ہُوا ہے جب وہ اقتدار کے 9ماہ اطمینان اور بے فکری سے گزار چکے ہیں اور جب اُن پر اور اُن کے کئی قریبی ساتھیوں پر قائم کیے مقدمات ختم کر دیے گئے ہیں۔ نیا سال، 2023 اِس حالت میں طلوع ہُوا ہے کہ ہمارے نئے وزیر خزانہ، اسحاق ڈار، اپنے ذاتی منجمد اثاثے بحال کروا چکے ہیں لیکن پاکستان اور پاکستانیوں کی معاشی خوشحالی بحال کرنے اور مالی اطمینان کا سورج طلوع کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ وزیر خزانہ صاحب، اپنی شدید ناکامیوں اور وعدہ خلافیوں کے پس منظر میں، سیاست و میڈیا کے ریڈار سے تقریباً غائب ہی ہو چکے ہیں ۔ موصوف کے سب دعوے اور وعدے ہوا ہو چکے ہیں ۔بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ نئے سال کے پہلے روز اسلام آباد میں پولیس میں بھرتی کے لیے 30ہزار سے زائد نوجوان امتحان دینے کے لیے آئے ، حالانکہ ملازمت صرف 1667افراد کو دی جانی تھی۔ پرانا سال ہچکی لے کر فنا اور عدم کے گھاٹ اُتر چکا ہے ۔ گزرے سال کا ایک ایک لمحہ یاد آ کر دل کو آری کی طرح چیرتا محسوس ہوتا ہے۔یہ احساس و کیفیت پاکستان کے اکثریتی عوام کی ہے ۔ کسی کو اِس احساس سے مفر نہیں۔ مگر ہمارے ہرقسم کے حکمران اور جملہ مراعات یافتہ طبقات کاگزرے سال میں گزرا ہر لمحہ فارغ البالی اور خوشی و مسرتوں سے لطف اندوز ہوتے گزرا ، نئے طلوع ہونے والے سال کا بھی ہر لمحہ اِن طبقات کے لیے مسرتوں کا جام لیے گزرے گا۔ پی ڈی ایم کا ہر رکن اور اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتیں بھی ایسے ہی خوش بختوں میں شامل ہیں ۔ ان کی خوش بختیوں اور خوشیوں کا بلیدان پسے اور پسماندہ عوام کو یوں دینا پڑ رہا ہے کہ اکثریتی عوام ذلتوں ، عسرتوں اور محتاجیوں کے گہرے گڑھوں میں گر چکے ہیں۔ اور وزیر اعظم اقتدار کے کئی مہینوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد اب ارشاد فرما رہے ہیں کہ ’’میرے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ چٹکی بجاتے ہی عمران خان کی برباد کی گئی معیشت کو درست کر دُوں۔‘‘ ماشاء اللہ! جو راگ عمران خان اپنے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران مسلسل الاپتے رہے، اب وہی راگ شہباز شریف الاپنے لگے ہیں۔ حکمران اپنی جبلت اور عادات و اطوار میں کس قدر اشتراک رکھتے ہیں! دُنیا کی رِیت و روایت ہے کہ نیاسال طلوع ہوتا ہے تو کسی شخص کو Man of the World قرار دیا جاتا ہے، کسی کوMan of the Year اور کسی فرد کو Person of the Yearکے فخریہ لقب سے نواز ا جاتا ہے ۔ ہمارے قومی اور عوامی دکھ اتنے زیادہ اور مہیب ہیں کہ ہمیں اِن القابات کی طرف توجہ دینے کا ہوش ہی نہیں رہتا ۔ ہماری ناکامیاں اتنی وسیع اور متنوع ہیں کہ ہمیں اپنے اندر کسی کامیاب اور پُر فخر شخص کو ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔2023کی آمد پر دُنیا نے ایک بھارتی ، ادیتیہ کھرانہ، کو ’’مَین آف دی ورلڈ‘‘ کہا ہے ۔ اور امریکی جریدے TIMEنے اپنی قدیم اور سالانہ روایت کو قائم رکھتے ہُوئے نئے سال 2023کے طلوع ہونے پر ولادیمیر زلنسکی کو ’’پرسن آف دی ایئر‘‘ قرار دیا ہے ۔ پچھلے تقریباً ایک سال سے یوکرین کے صدر، ولادیمیر زلنسکی، جس ہمت، جرأت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کئی گنا زیادہ بڑے اور طاقتور ملک، رُوس، کی ظالمانہ و غاصبانہ یلغار اور حملوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں واقعی وہ ’’پرسن آف دی ایئر‘‘ کہلانے کے حقدار ہیں ۔رُوسی حملہ آور ، ولادیمیر پوٹن، کے حصے میں البتہ عالمی مذمتیں ہی آئی ہیں ۔ رُوس ابھی کمزور افغانستان کو برباد کرنے کی عالمی مذمتیں سمیٹنے نہیں پایا تھا کہ اُس نے یوکرین پر یلغار کرکے نئی عالمی رسوائیاں مول لی ہیں ۔ کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن نئے سال کی آمد پردُنیا نے تو اپنا ’’مَین آف دی ورلڈ‘‘ بھی منتخب کر لیا ہے اور ’’پرسن آف دی ایئر ‘‘ بھی ، ہم مگر کسے اپنا ’’مَین آف دی ایئر‘‘ منتخب کریں ؟ یہ سوال قدرے مشکل اور اوکھا ہے ۔ ہمارے خیال میں سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کو ’’مَین آف دی ایئر‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ گزرے سال ،2022، کے تین چوتھائی حصے کے دوران اگرچہ حکومت و اقتدار کی مہار شہباز شریف کے ہاتھوں میں رہی لیکن عوام اور میڈیا کے حواس اور اعصاب پر عمران خان ہی سوار اور غالب رہے ۔خان صاحب نے سوچ سمجھ کر اعلان کیا تھا کہ اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو مَیں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔ خان صاحب نے گزرے سال کے دوران اپنے اعمال و افعال سے اپنے کہے کو سچا ثابت کر دکھایا۔ اُن کی ’’ہمتوں‘‘ اور انتھک ’’جد وجہد‘‘ کو سلام و سیلوٹ۔ گزرے سال کے دوران عمران خان نے ہماری سیاست میں جو بھونچال اور ہمہ جہتی طوفان اُٹھائے رکھے، ان سب کے پیش منظر میں ہم بجا طور پر جناب عمران خان کو ’’مَین آف دی ایئر‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ خان صاحب نے سالِ گزشتہ کے دوران پورے ملک میں درجنوں کی تعداد میں جلسے کیے ۔ اُن کا ہر جلسہ ہی مثالی ، شاندار اور بھرپور رہا۔ ان جلسوں کے دوران خان صاحب نے جس توانا لہجے میں خطابات کیے، ایک بار بھی احساس نہیں ہُوا کہ تھکن اور پژمردگی اُن کے پاس سے بھی گزری ہے۔ انھوں نے اپنے ہر مرئی اور غیر مرئی مخالف کو پوری قوت سے للکارا ۔ اس للکار و یلغار میں وہ بھی محفوظ نہ رہ سکے جو کبھی خان صاحب کے ’’محسن و مربی‘‘ سمجھے جاتے تھے ۔ سب حیران ہیں کہ ہمارا یہ ’’مَین آف دی ایئر‘‘ تنِ تنہا مخالفوں کے خلاف اپنی پروپیگنڈے اور اسٹرٹیجی کی طاقتور مشینری کو خود متحرک اور گائیڈ کرتا ہے ۔ اس مہیب مشینری کے سامنے، ساراسال، عمران خان کے جملہ مخالفین بے بس رہے ۔ خان صاحب عوام میں اس قدر مقبول و محبوب رہے کہ طاقتوروں کے خلاف عائد کیے گئے اُن کے کئی سنگین الزامات کے باوصف اُن پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔خان صاحب کا زور توڑنے کے لیے بعض اطراف سے اُن کے خلاف کچھ مبینہ آڈیو ٹیپس بھی ’’مارکیٹ‘‘ میں پھینکی گئیں لیکن ہمارے ’’مَین آف دی ایئر‘‘ کو ڈھب پر نہ لایا جا سکا۔اُن کی مقبولیت بدستور قائم ہے۔ مخالفین اُن سے اتنے خائف ہیں کہ بلدیاتی ، قومی اور صوبائی انتخابات کا رسک لینے سے ڈر رہے ہیں ۔

بشکریہ ایکسپرس