131

یہ اعلان جنگ نہیں تو کیا ہے ؟

 گزشتہ سے پیوستہ  روز کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی "مجاہدین "  دشمن اور امریکہ نواز پالیسیوں کے جواب میں دونوں جماعتوں کے سرکردہ رہنمائوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام ان جماعتوں کے رہنمائوں کے قریب جانے سے گریز کریں۔ 
چند روز قبل بھی اسی  کالعدم تنظیم اور بین الاقوامی دہشت گرد داعش خراسان کی جانب سے پاکستان میں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بھی خبردار کیا گیا تھا کہ وہ ان تنظیموں کے فدائین کے خلاف حکومتی کارروائیوں کی تشہیر اور پروپیگنڈے کا حصہ بننے سے گریز کریں۔ 
گزشتہ روز ہی  صوبہ پنجاب ضلع خانیوال میں دہشت گردی کی ایک واردات میں سی ٹی ڈی میں خدمات سرانجام دینے والے ایک اہم ادارے کے دو افسر شہید ہوگئے۔ بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر قبضے اور واگزاری کے عمل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز نے دہشت گرد گروپوں کو بڑا نقصان پہنچایا تھا۔
 بنوں آپریشن کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ ملکی سلامتی اور امن و امان کے خلاف سرگرم عمل انسانیت دشمن مسلح جتھے مزید کارروائی کرسکتے ہیں۔چاردن قبل  ہی پارلیمنٹ پر حملہ کی دھمکی دینے والے دہشت گرد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اسی روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی یا کسی اور دہشت گرد ٹولے سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ 
وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ دہشت گرد کارروائیوں کے لئے افغانستان سے آتے ہیں اس حوالے سے ٹھوس ثبوت افغان حکومت کے سامنے رکھیں گے۔ 
چنددن قبل  ضلع خانیوال کی حدود میں دہشت گردی کی واردات میں انسداد دہشت گردی کی مہم میں وسیع تجربے کے حامل دو افسران کی شہادت غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس ضمن میں سی ٹی ڈی خانیوال  ڈسٹرکٹ سکیورٹی اور انٹیلی جنس کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات غلط بہرطور نہیں ۔ دہشت گرد نے دونوں افسروں کو جس طرح نشانہ بنایا اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اپنے شعبہ میں خصوصی مہارت کے حامل ان دونوں افسروں کی مکمل  ریکی کی جارہی تھی اور دہشت گرد کے ساتھیوں کے پاس ان کی آمدورفت  بارے معلومات موجود تھیں۔
 اس واردات کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومت کے ذمہ  داران نے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا۔ صوبہ پنجاب میں ہائی سکیورٹی الرٹ بھی جاری کردیا گیا۔ یقیناً اس واردات کے ذمہ دار اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کے لئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی  جائے گی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اے این پی کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان کے بیان سے دہشت گردوں کے عزائم سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
پچھلے  برس مجموعی طور پر دہشت گردی کی 376 وارداتیں ہوئیں ان وارداتوں میں پولیس و سکیورٹی فورسز اور شہریوں کی بڑی تعداد شہید ہوئی۔ ان حملوں میں سے 49حملے صرف گزشتہ ماہ دسمبر میں ہوئے جن میں 56افراد شہید اور 81زخمی ہوئے۔ یہ حملے نومبر 2022ء کے مقابلہ میں 44فیصد زیادہ تھے۔ گزشتہ سال کے  دوران 15خودکش حملے ہوئے۔ اسی عرصے میں 39  دہشت گرد ہلاک اور 43 گرفتار بھی ہوئے۔
 کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے اور سرکاری و پبلک مقامات پر کارروائیاں کرنے کے اعلان کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں میں جس طرح اضافہ ہوا اس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
 گزشتہ روز کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پی پی پی اور (ن) لیگ کے سرکردہ رہنمائوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی دھمکی اور مذہبی جماعتوں کو غیرجانبدار رہنے کا انتباہ بھی اس امر کی تصدیق کرتاہے کہ دہشت گردوں کے مقاصد کیا ہیں۔ پچھلے ہفتہ اور بعدازاں سوموار کو منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے ضمن میں کئے جانے والے فیصلوں سے یہ امید بندھی تھی حکومت دو قدم آگے بڑھ کر آل پارٹیز کانفرنس بلائے گئی تاکہ ملک کی سیاسی قیادت میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے افسوس کہ 4دن گزرجانے کے باوجود ایسی کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی
 البتہ گزشتہ سے پیوستہ روز پشاور میں خیبر پختونخوا کی اپوزیشن کی اے پی سی میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے حوالے سے صوبائی حکومت کے تساہل برتنے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جوکہ یقیناً افسوسناک ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب قومی و سیاسی اتفاق رائے اور اتحاد کی ضرورت دوچند ہے سیاسی جماعتوں کا اس معاملے پر سیاست کرنا افسوسناک ہے۔ اس امر سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ 15سالوں کے دوران دہشت گردوں نے پی پی پی اور اے این پی کے رہنمائوں اور کارکنوں کے ساتھ مختلف الخیال طبقات کے ان لوگوں کو نشانہ  بنایا جو شدت پسندی اور دہشت گردی کے اعلانیہ ناقد تھے
 اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ 2014ء میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اس وقت کی حکومت سے مذاکرات کے لئے اپنی جس رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا اس میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا نام بھی شامل تھا۔ 
عمران خان نے حال ہی میں ٹی ٹی پی سے  اپنے دور میں شروع ہوئے کابل  مذاکرات کو درست قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’ہم چاہتے تھے کہ افغانستان میں موجود مسلح جنگجوئوں میں سے 5ہزار افراد کو واپس لاکر آباد کیا جائے‘‘۔ 
غالباً ان کی یہ بات مسلح جتھوں کو  قومی دھارے میں لانے کی ان کی سوچ کے مطابق ہے البتہ انہوں نے دو باتوں کی وضاحت نہیں کی اولاً یہ کہ کابل مذاکرات کے دوران جن 130 خطرناک دہشت  گردوں کی رہائی کا فیصلہ ہوا اس کی منظوری کس سطح پر دی گئی نیز یہ کہ کیا انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے و الے دہشت گردوں کا جو خون بہا کالعدم  ٹی ٹی پی نے طلب کیا تھا اس کا  کچھ حصہ واقعتاً ادا کیا گیا جیسا کہ کہا جارہا ہے؟ 
 امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے مٹہ، سوات اور دیگر علاقوں میں پچھلے سال اپنی واپسی کے حوالے سے جس معاہدہ کا تذکرہ کیا وہ معاہدہ کس کے ساتھ ہوا تھا؟بظاہر یہ عرض کرنا غیرمناسب نہیں ہوگا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کرکے کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنی ترجیحات و اہداف بارے واضح کردیا ہے۔ منگل کے روز خانیوال میں شہید ہونے والے دونوں افسر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اپنے تجربے کی بدولت خصوصی  اہمیت کے حامل تھے ان دو افسران کو جس آسانی کے ساتھ ٹارگٹ کیا گیا اس پر لوگوں میں اضطراب پیدا ہونا فطری امر ہے۔ موجودہ حالات میں بہت ضروری ہوگیاہے کہ ملک بھر میں ہائی سکیورٹی الرٹ کیا جائے۔ پی پی پی، اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کی سرکردہ شخصیات بالخصوص بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف اور ایمل ولی خان و میاں افتخار حسین  کی فول پروف سکیورٹی کا پلان وضع کیا جائے۔ 
یہ بات بہرطور مدنظر رکھنا ہوگی کہ سکیورٹی اداروں، پولیس، دہشت گردی کے مخالف صحافیوں کو دھمکیاں  اور اب پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے خلاف کارروائیوں کا اعلان۔ درحقیقت دہشت گردوں کا پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہی ہے۔
 دہشت گردوں کے ٹھکانے کہاں ہیں سرحد پار دراندازی کے لئے ان کے مددگار اور مقامی سہولت کار  کون ہیں اس حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیاں یقیناً باخبر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرحد پار دراندازی پر افغانستان سے دوٹوک بات کی جائے۔ اس حوالے سے بعض افغان رہنمائوں کی ٹی ٹی پی کو حاصل سرپرستی کا معاملہ بھی افغان حکومت کے سامنے رکھا جائے۔ 
ان اقدامات سے قبل حکومت بلاتاخیر آل پارٹیز کانفرنس بلاکر قومی اتفاق رائے کے قیام کے لئے پہل کرے۔ حکومت اگر اے پی سی بلاتی ہے تو اگر مگر کے سہارے اے اے پی سی میں شریک نہ ہونے والوں کے مقاصد بھی عوام پر عیاں ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر سانحہ خانیوال کے حوالے سے مذموم پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر کے خلاف بھی فوری کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

بشکریہ اردو کالمز