204

کیا غیر ازدواجی تعلقات"جنسی تشنگی یا جنسی کشش"کا شاخسانہ ہوتے ہیں؟

کیا مذہبی معاشرے غیر ازدواجی تعلقات جیسی لعنت سے پاک ہوتے ہیں؟

 کیا غیر مذہبی معاشروں میں غیر ازدواجی تعلقات کا کلچر زیادہ پایا جاتا ہے؟

 کیا ایک کنٹریکٹ میں رہتے ہوئے اپنے پارٹنر کو دھوکہ دینا اخلاقی رویہ ہوگا یا غیر اخلاقی؟

 کسی بھی تصور بارے پختہ بنیادی عقائد آنکھوں دیکھے سچ  کا متبادل ہو سکتے ہیں؟

 شادی اگر مقدس بندھن ہے اور رشتے آ سمانوں پر طے ہوتے ہیں تو پھر ایکسٹرا میریٹل ریلیشنز  کی اتنی داستانیں کیوں؟

 کیا ریالٹی یا فینٹسی کے بیچ کوئی واضح فرق ہوتا ہے؟

 کیا ایک بامعنی تعلق کے بغیر زندگی خوشیوں کا پیکج ثابت ہوسکتی ہے؟

 کیا ایک ایسا جبری تعلق جس میں قربت و بے تکلفی کی چاشنی شامل نہ ہو وہ دیرپا اور پائیدار ہو سکتا ہے؟

 کیا انسان مونو گیمس ہوتے ہیں؟ یا ان کی ذہنی کیمسٹری یک زوجیت کے اصول کو تسلیم کرتی ہے؟

اگر انسانی فطرت یک زوجگی کے دستور کو تسلیم کرتی ہے تو پھر کثرت ازدواج کا اتنا شہرہ کیوں؟

 ان سوالوں پر غور کیے بغیر غیر ازدواجی تعلقات، جنسی تشنگی و کشش، یک زوجگی یا کثرت ازدواج جیسے مسائل کو سمجھنا یا ڈی کوڈ کرنا ذرا مشکل ہو جائے گا، نتیجہ خیز یا مؤثر حل کی طرف بڑھنے سے پہلے صدیوں کے "اسٹیٹس کو" کے متعلق چھان پھٹک بہت ضروری ہوتی ہے، اگر سب کچھ فکس،طے شدہ یا ریڈی میڈ ہوتا تو لمحہ موجود کی کائنات اتنی خوبصورت نہ ہوتی ظاہر ہے اس خوبصورتی کے پیچھے انسانی سوچ کا تسلسل یا ارتقاء کار فرما رہا ہے۔ٹھہری ہوئی سوچ یا  پانی بافیض نہیں رہتا بلکہ انتشار و تکلیف کا سبب بنتا ہے اسی لئے جو قومیں اپنے تصورات و ایقان کو تقدسی دڑبے سے نکال کر تنقید کی چھلنی سے گزارا کر ریفائن یا تبدیل کر لیتی ہیں وہی آگے بڑھتی رہتی ہیں اور جو اس قسم کا تکلف نہیں کرتے وہ ہمیشہ کنویں کے مینڈک ہی رہتے ہیں اور عظمت رفتہ کے گن گاتے رہتے ہیں حالانکہ وہ اپنے عصر سے بچھڑ چکے ہوتے ہیں مگر انہیں ادراک نہیں ہوتا۔ ہم سب انسان ہیں اور انسان بہت کمپلیکس ہوتے ہیں انسانی ذہنوں اور رویوں کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا، ہمیں کسی کو بھی بلیک اینڈ وائٹ میں پینٹ کرنے کی بجائے گرے ایریاز کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور معاملہ فہمی کے لئے مجموعی کی بجائے کیس ٹو کیس دیکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شادی کی شیلف لائف آٹھ سے دس سال تک ہوتی ہے بعد میں یک طرز کی ایک روٹین سی سرگرمی بن کے رہ جاتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اپنی افادیت کھو ڈالتی ہے، انسان اور اس کا ذہن اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اسے ایک ہی وقت میں استحکام چاہیے ہوتا ہے اور ساتھ میں "نویلٹی"یعنی مختلف اور جدت بھی۔ہمیں اپنے اور مستقبل بارے پہلے سے جاننے کا تجسس یا تشنگی ہوتی ہے اور ساتھ میں ایڈونچر بھی۔ بقول ڈاکٹر خالد سہیل کہ

 "ایک ہی چھت اور کمرے میں رہنے والے دو افراد کے خواب مختلف کیوں ہو جاتے ہیں"؟

 جو لوگ سینکڑوں افراد کے سامنے ایک ساتھ سفر کا آغاز کرتے ہیں لیکن کچھ وقت کے بعد وہی دو افراد "دو اجنبی یا مختلف لوگ" کیوں بن جاتے ہیں؟ اس شادی کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے جس میں کمرہ عروسی میں دو اجنبی ایک پہیلی بجھارت کی مانند ایک دوسرے کو اس آ س و امید پر گھور رہے ہوں کہ شاید ہم ایک دوسرے کو پیارے ہو جائیں یا ایک دوسرے کو پسند کر کے حقیقی پارٹنر بن جائیں؟ ظاہر ہے "جوا" تو پھر آ ر پار ہی ہوتا ہے اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ دونوں جیت جائیں کسی ایک کو تو گیم سے آؤٹ ہونا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے سماجی جبر کی وجہ سے جسمانی طور پر تو جدا نہیں ہو سکتے مگر ذہنی طور پر جدا ضرور ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں خاتون اسے اپنے مقدر کی کہانی متصور کرتے ہوئے سسک سسک کر زندگی کے دن پورے کرنے میں لگ جاتی ہے اور مرد قربت اور بے تکلفی ڈھونڈنے کی غرض سے ادھر ادھر منہ مارنے لگ جاتا ہے، ممکن ہے خاتون بھی کچھ اسی قسم کے راستے کا انتخاب کرتی مگر مجبور ہوتی ہے کیونکہ اس کے جسم و ذہن پر سماج کا ایک کڑا پہرا ہوتا ہے ذرا سا بھی معاشرے کی خونخوار نظروں سے ادھر ادھر کھسکی نامراد ٹھہری اور معاشرتی پنڈتوں کے توہین و ذلت آمیز ٹھپے لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ دو انسان عادات و اطوار میں تو ضرور مختلف ہو سکتے ہیں مگر انسانی جذبوں کی کیمسٹری میں مثلا پسند ناپسند، پیار و محبت اور خود کے لیے اپنے حساب سے جیون ساتھی چننے میں مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر مرد کو چوائس کی رغبت اور قربت و بے تکلفی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو خاتون کو ان جذبوں سے بے نیاز کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرد کو جنسی کشش محسوس ہوتی ہے تو کیا خاتون کو محسوس نہیں ہوتی یا وہ جنسی کشش جیسے جذبے سے محروم یا بے نیاز ہوتی ہے؟ اگر ایک کنٹریکٹ میں سماجی بندوبست کے تحت دو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہنے کا پابند کیا جاتا ہے تو کیا دونوں پر اس معاہدے کی پاسداری کا اطلاق ہوگا یا کسی ایک پر؟ ظاہر ہے دونوں پر ہوگا مگر اکثر ایسا دیکھنے میں کیوں آتا ہے کہ اس معاہدے پر خاتون کو ہر صورت عمل کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے جبکہ مرد چار شادیوں کی اجازت کی آڑ میں اسی خاتون کا ساری زندگی استحصال کرتا رہتا ہے؟ اگر مرد اپنی خاتون کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خاتون اپنے مرد کو کسی دوسری خاتون کے ساتھ بستر بانٹتے دیکھ کر برداشت کر سکتی ہے؟ پھر یہ منافقت کا کیسا دہرا معیار یا پیمانہ ہے کہ مردوں کے ہاتھوں ہمیشہ غیرت کے نام پر خواتین ہی قتل ہوتی رہی ہیں کبھی کسی خاتون نے اس قسم کا قدم نہیں اٹھایا؟ اگر خاتون بھی انہی راہوں پر چلنے کا فیصلہ کر لیتی تو کیا کوئی مرد بچتا؟ ظاہر ہے مرد کو خاتون سے زیادہ کون جان سکتا ہے اسے بڑے اچھے سے پتا ہوتا ہے کہ

 "مرد کیا چیز ہوتی ہے"

 مگر سماجی قدغنوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے لبوں کو سی لیتی ہے اور بہت کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی آنکھیں موند لینے پر اسے اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب دہرے معیارات کا مکروہ سرکل  ہے جس کا خمیازہ اکیلے خاتون کو بھگتنا پڑتا ہے، مردوں کو کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑتا معاشرے کے دو افراد کو جب آپ اخلاقیات کے نام پر دو الگ الگ دڑبوں میں بند رکھتے ہیں اور ساتھ میں یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ شادی کے بعد ان کے درمیان کوئی نارمل قسم کا ریلیشن یا مساوی پارٹنر ہونے کا جذبہ بیدار ہو پائے گا بالکل ہی فضول سوچ ہوتی ہے، ان کے درمیان آ قا اور غلام کا رشتہ تو ضرور قائم ہوجائے گا مگر وہ کبھی دو محبوب یا دوست نہیں بن پائیں گے۔ اس قسم کے جبری بندوبست کے نتیجے میں ان کے درمیان ایک غیر حقیقی سا رویہ جنم لیتا ہے اور پورنوگرافک زدہ  مرد کے ذہن میں ایک غیر حقیقی طرز کی جنسی توقعات کا منظر نامہ پہلے سے فیڈ ہوا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے نارمل سیکس تو ایسا بالکل نہیں ہوتا جس طرح سے پورنوگرافک سائیٹس میں دکھایا جاتا ہے۔ جنسی تشدد دیکھ کر جوان ہونے والے بچّوں کو نارمل رلیشن کا بھلا کیا پتہ ہوگا؟ جن معاشروں میں جنسی تعلیم کا بندوبست نہیں ہوتا یا جنس جیسے اہم موضوع کو ڈسکس کرنے سے سماجی ڈھانچہ بکھر جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہو تو اس قسم کے معاشرے میں جنسی فرسٹریشن یا گھٹن جنم لینے لگتی ہے اور معاشرے میں "جنسی تمیز" ختم ہو جاتی ہے اور جنسی درندے اپنی ہوس مٹانے کے لیے چھوٹے بچے بچیوں تک کو نہیں چھوڑتے۔ تصوراتی رنگینیوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں سیکس کو بہت اوور ریٹ قسم کی چیز سمجھا جاتا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ سیکس سب سے اہم چیز ہوتی ہے جبکہ حقیقت میں یہ بھوک اور پیاس کی طرح کی ایک ضرورت ہوتی ہے، ضرورت پوری ہوئی اور آگے چل پڑے۔ اگر یہ ضرورت اوبسیشن میں ڈھل چکی ہو اور آپ جگہ جگہ منہ مارنے کے عادی ہو چکے ہوں تو سوچنا پڑے گا کہ آپ کی ذہنی حالت کیسی ہے؟ سیکس ایک اہم پارٹ ضرور ہے مگر "کل" نہیں ہے چند لمحات کی تسکین کے بعد باقی کا زیادہ تر وقت آپ نے ایک جیتے جاگتے انسان کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے اور آپ کی زندگی صرف سیکشوائل لائف سے ڈیفائن نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ ایک پارٹنر تک محدود نہیں رہتے اور جنسی تسکین یا ہوس کے لیے جگہ جگہ منہ مارتے رہتے ہیں، ہماری نظر میں تو ایسا شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک کے ساتھ ایموشنل ریلیشن قائم کر سکے۔ ایک نارمل انسان کو وابستگی یا بانڈ کی ضرورت ہوتی ہے اور ایموشنل وابستگی کے بغیر انسان کا انسانوں کے بیچ رہنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ہم سماجی حیوان ہیں اور یہ ہماری بنیادی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی میں کوئی ایک ایسا ہو جس کے ساتھ ہم اپنے دل کی بات شیئر کر سکیں اگر یہ تعلق صرف سیکس تک محدود ہو گا تو وہ زیادہ پائیدار یا ہارٹ ٹو ہارٹ نہیں ہوگا۔ چند لمحات کا ایکٹ آپ کی پوری زندگی کا ترجمان نہیں بن سکتا، ایموشنل کنکشن کے ساتھ اگر جنسی ضرورت پوری ہو رہی ہے تو آپ اپنی زندگی کو انجوائے کریں گے لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس یا صرف یکطرفہ سیکس تک محدود ہو گا تو اس قسم کے تعلق میں پائیداری ممکن نہیں ہو سکتی، وہ تو صرف ایک طرح سے لاحاصل مشق تصور ہو گی کبھی کسی کے ساتھ اور کبھی کسی کے۔ ہر شخص کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی "اینکر" کی ضرورت ہوتی ہے جس کی مدد سے زندگی کی چاشنی دوبالا ہو سکے، ایک تھکا دینے والا دن گزارنے کے بعد کوئی ایک ایسا ہو جو آپ کے ایموشنز کو نارمل کرکے آپ کی زندگی کو پرسکون بناسکے، کوئی ہماری سننے والا ہو اور کوئی خیال رکھنے والا ہو۔ اگر بدقسمتی سے آپ کسی ایک کے ساتھ ایموشنل ریلیشن نہیں بنا پائے اور کبھی ادھر اور کبھی ادھر والی صورتحال کا شکار ہیں تو ایک دن ایسا آئے گا کہ آپ تنہا رہ جائیں گے۔ زندگی میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کی بھیڑ میں اکیلے ہوتے ہیں۔

بشکریہ اردو کالمز