186

مواخات مدینہ، جس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہے (19)

رسالت مآبﷺ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ مرکوز فرمائی، وہ شہر کا امن و امان اور اسکے باشندوں کی تعلقات باہمی کو خوشگوار بنانا تھا۔ آپﷺ نے اس بات کو مدینہ جاتے ہی محسوس فرمایا، کہ مہاجرین کی جماعت چونکہ مکہ سے آئی ہے۔ وہ اہل مدینہ پر بوجھ نہ بن جائے۔ ساتھ ہی آپ کو یہ بھی خیال تھا، کہ مہاجرین جنھوں نے دین کی خاطر انتہائی تکلیفیں برداشت کی ہیں، اور اپنے گھر، وطن، عزیز و اقارب، مال و زر، خاندان اور برادری سب کو چھوڑ کر مدینہ آئے ہیں، وہ شکستہ دل نہ ہو جائے۔ چنانچہ آپﷺ نے ایک دن تمام انصار و مہاجرین کو جمع فرماکر اخوت اسلامی پر وعظ فرمایا، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر بھائی چارہ قائم کر کے انصار و مہاجرین کے تعلقات کو نہایت خوشگور بنا دیا۔ ایک مہاجر اور ایک انصار کے درمیان مواخاۃ قائم ہو گئی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دینی بھائی حضرت خارجہ بن زید بن ابی زہیر انصاری ؓ بنے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے دینی بھائی حضرت عتبان بن مالک انصاری ؓ ہوئے۔ حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح ؓ کا بھائی چارا حضرت معاذ انصاری ؓ سے، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا حضرت سعد بن ربیع انصاری ؓ سے، حضرت زبیر ابن العوام ؓ کا حضرت سلمہ بن سلامہ ؓ سے، حضرت عثمان غنی ؓ کا حضرت ثابت بن المنذر انصاری ؓ سے رشتہ اخوت قائم ہوا۔ اس طرح حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ اور حضرت کعب بن مالک ؓ میں، حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور حضرت ابو ایوب انصاری ؓ میں، حضرت عمار بن یاسر ؓ اور حضرت حذیفہ بن یمان ؓ میں بھائی چارا مستحکم ہوا۔ غرض ایک ایک مہاجر کا ایک ایک انصاری سے رشتہ اخوت قائم ہو گیا۔ 

(تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 130)

چنانچہ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا، کہ آپ ہمارے بھائی ہیں، اس لیے ہماری تمام مال و متاع میں آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔

اس موقع پر حضرت سعد بن الربیع انصاری ؓ جو حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ مہاجر کے بھائی قرار پائے تھے، ان کی دو بیویاں تھیں، حضرت سعد بن ربیع ؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے کہا کہ میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں، میں اس کو طلاق دے دوں گا، آپ اس سے نکاح کر لیں۔ حضرت سعد ؓ کی اس مخلصانہ پیشکش کو سن کر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے شکریہ کے ساتھ یہ کہا، کہ اللہ تعالی یہ سب مال و متاع اور اہل و عیال آپ کو مبارک فرمائے، مجھے تو آپ صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔ انہوں نے مدینہ کے مشہور بازار "قینقاع" کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ بازار گئے اور کچھ گھی، کچھ پنیر خرید کر شام تک بیچتے رہے۔ اس طرح روزانہ بازار جاتے رہے، اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ کافی مالدار ہو گئے، اور ان کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا، کہ انہوں نے شادی کر کے گھر بسا لیا۔ ان کی طرح دوسرے مہاجرین نے بھی دوکانیں کھول لیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کپڑے کی تجارت شروع کر دی، حضرت عثمان غنی ؓ کھجوروں کی تجارت کرنے لگے، اور حضرت عمر فاروق ؓ بھی تجارت میں مشغول ہو گئے۔ دوسرے مہاجرین نے بھی چھوٹی بڑی تجارت شروع کر دیں۔ غرض باوجود یکہ مہاجرین کے لیے انصار کا گھر مستقل مہمان خانہ تھا، مگر مہاجرین زیادہ دنوں تک انصار پر بوجھ نہیں بنے، بلکہ اپنی محنت اور بے پناہ کوششوں سے بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔

(سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 186 تا 188)

بشکریہ اردو کالمز