تحریر : علی مدد
و لن تجد لسنةاللہ تبدیلا ﴿سورة احزاب:62)
ترجمہ۔ "اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاوگے"
سنت کا مطلب ہے طریقہ کار ، طرز عمل ۔ جب اللہ پاک کی سنت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اللہ کا وضع کردہ نظام حیات و فطری قوانین ہیں جن کے بل بوتے پر سارا نظام کائنات و تمام موجودات رواں دواں و آباد ہیں ۔ ان سے مراد وہ اٹل فطری قوانین ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتے ہیں بلکہ خود خالق کائنات بھی انھیں چھیڑتا نہیں ہے سوائے خاص حالات کے جن کا آگے ہم زکر کریں گے۔ مثلا کشش ثقل ایک فطری ( الہی ) قانون ہے جس کی بدولت رب کائنات نے تمام کائنات بشمول ہمارا سیارہ زمین اس میں موجود بڑے و اونچے اونچے پہاڑ ، درخت ، دریا ، سمندر ، انسان و حیوانات سب کو اپنی اپنی جگہ قائم کر رکھا ہے مگر نہایت ہی لطیف و منظم توازن کے ساتھ۔ اگر کشش ثقل نہ ہوتا تو انسان ، حیوان و درخت سب کچھ الٹ پلٹ جاتے ، روئی کی طرح ہوا میں بکھر جاتے۔ چاند و زمین کا سورج کے گرد گھومنا اور اپنے محور میں بھی گھومتے رہنا جس سے موسمی تغیر و تبدیلیاں ممکن ہوجاتی ہیں دن رات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں کشش ثقل کی بدولت ہی ممکن ہے۔ کشش ثقل کی بدولت ہی زمین پر ہر شے اپنی اپنی جگہ قائم ہے۔ چھوٹے چھوٹے مادی ذرات جو کھربوں میں ہیں کشش ثقل کی مدد سے ہی آپس میں مل کر مختلف اجسام تشکیل دیتے ہیں جس میں انسان، حیوان ، درخت و پہاڑ سب شامل ہیں۔
فرض کرتے ہیں کہ الہی قانون کشش ثقل تو موجود ہے مگر کوئی سر پھیرا مسلمان یہ سوچتے ہوئے کہ وہ تو بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہے اگر وہ الہی قانون کشش ثقل توڑتے ہوئے دس منزلہ مکان سے نیچے چھلانگ لگانے کی حماقت کرتا ہے ۔۔۔ چونکہ وہ مسلمان ہے اسلیے اس قانون کا اس پر اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ سنت الٰہیہ میں ایسا ممکن نہیں ہے ۔رب العالمین اس احمق بندے کیلے اپنا قانون ( سنت) ہرگز تبدیل نہیں کرے گا خواہ ایسے شخص کے جسم کے سو ٹکڑے بھی ہو جائیں۔ اسی طرح اللہ پاک نے آگ و لوہے کو بھی خاص فطرت و خاصیت عطا کی یے۔ کوئی آگ میں کودتا ہے یا لوہے کا خنجر سینے میں پیوست کرتا ہے تو آگ و خنجر دونوں اپنا اثر دیکھائیں گے خواہ وہ شخص مومن ہو یا گناہگار ، مسلمان ہو یا کافر ۔۔۔فطرت نے اپنا کام کرکے رہنا ہے۔ اسی طرح زہر بھی اپنے اندر خاص تاثیر رکھتی ہے جو چکھے گا وہ لذت پائے گا ۔۔۔اللہ کی سنت ہے کہ وہ زہر کے ذریعے خودکشی کرنے والے ، دریا میں کودنے والے سمیت کسی بھی فعل قبیح کے مرتکب کو بزور قوت عمل بد سے روکتا نہیں ہے البتہ عقل و ھدایت کے ذریعے حجت ضرور پوری کرتا ہے کہ بطور انسان اسے کون کون سے کام کرنے ہیں اور کس سے باز آنا ہے
اللہ پاک کے نظام میں اعتدال و توازن کا قانون موجود ہے جس میں تمام مخلوقات بقائے زندگی کیلے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں جیسے انسان آکسیجن و کھانے پینے کی اشیاء حاصل کرنے کیلے نباتات کا محتاج ہیں اور نباتات کاربن ڈائی آکسائڈ و دیگر ضروریات زندگی کیلے انسانوں و حیوانوں کا محتاج ہیں۔ حیوان بھی انسان و نباتات دونوں کے محتاج ہیں۔ اس مقصد کیلے ایکو سسٹم کو توازن میں رکھنا ضروری ہے جس کیلے درختوں کی بے جا کٹائی کو روکنا ، پانی و دیگر قدرتی وسائل کے استعمال میں کیفیت شعاری، زمین کو آلودگی سے بچانا ہم انسانوں کی زمہ داری میں شامل ہے۔ جب انسان الہی قانون توازن کا احترام نہیں کرتا ہے انھیں توڑتا ہے تو پھر نتائج سیلاب ، زلزلے و خشک سالی کی صورت میں سامنے آجاتے ہیں ۔ انسانی وجود میں بھی الہی نظام توازن کار فرما ہے جس کے مطابق انسان نے کھانے پینے ، سونے ، ورزش کرنے کیلے اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ چونکہ مجھے شہد یا گرم دودھ جیلیبی اچھی لگتی ہے اور میں دو تین کلو ایک ہی وقت ہڑپ کرلونگا تو ڈاکٹر و حکیم بھی مجھے نہیں بچا پائے گا۔ دیگر ممنوعہ اشیاء جیسے منشیات کے استعمال کے نقصانات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ الہی قانون کے مطابق تیرتے ہوئے دریا وہی عبور کرے گا جسے تیراکی آتی ہو خواہ جس بھی عقیدے و نسل سے ہو۔ مسلمان کیلے کوئی استثنٰی حاصل نہیں ہے۔
اللہ پاک کے سنت کی تبدیل نہ ہونے کی ایک اور درخشاں مثال انسانوں کیلے ھدایت کا مستقل نظام یے۔ لطیف و خبیر رب کو پتہ ہے دین جیسا عظیم سرمایہ عقل جز و علم جز انسانوں کے ہجوم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ اسلیے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر معبوث کئے تاکہ بدلتے حالات و واقعات کے مطابق دین فطرت کو وقت و زمانے سے ایم آہنگ رکھا جاسکے ۔ ختم النبین کے بعد نبوت کا سلسلہ تو بند ہوچکا ہے مگر حدیث ثقلین و حدیث غدیر کے مطابق دنیا میں نظام امامت جاری و ساری یے۔ آل محمد سے ایک امام ہر دور زمانے میں موجود رہتے ہوئے دین اسلام کو تاویل و تفسیر کے ذریعے تروتازہ رکھتا ہے تاکہ نبی پاک کا یہ خوش ذائقہ و خوشبودار باغیچہ ہر دور و زمانے میں سرسبز و شاداب رہے۔
اللہ پاک کی سنت میں تبدیلی نہ ہونے کی چند اور مثالیں ۔۔والدین کی خدمت ، بزرگوں کا ادب ، چھوٹوں پر شفقت، ہمسائے سے حسن سلوک، رزق حلال ، محنت میں برکت، حصول علم و حکمت، فیاضی ، تقوی ، بردباری، خدمت و احترام انسانیت ۔ عفو درگزر ، صبر و استقامت وغیرہ وہ اٹل اخلاقی اصول ہیں جو تمام آسمانی کتب و صحیفوں کی مشترکات میں سے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں بھی یہ اخلاقی قوانین اہم تھے ، باقی انبیاء کے زمانے میں بھی برحق رہے اور تا قیامت ایک مہذب ، خوشحال و تہذیب یافتہ معاشرے کیلے ضروری ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں والدین کی خدمت کرنا اب فرض نہیں رہا کیونکہ انسان ترقی کرکے چاند و مریخ پر قدم رکھ چکا ہے۔ اسی طرح رذائل اخلاق جیسے شہوت پرستی ، ظلم ، لواطت، ناانصافی، لالچ ، قتل و دہشت گردی ، حرام مال و متاع و جھوٹ وغیرہ زمانہ اول میں تو معیوب سمجھے جاتے تھے مگر اب نہیں کیونکہ آج انسان نے زمین و آسمان و سمندر تک کو تسخیر کر رکھا ہے وہ الہی قوانین کی پاسداری کا پابند نہیں۔۔۔حماقت سے وہ ایسا کرنے کی جرات کرے گا تو مکافات عمل سے گزرے گا ۔۔۔ الہی سنت میں کسی کو بھی اس قسم کا استثنی حاصل نہیں ماسوائے چند شخصیات کے جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا گیا تو حکم الہی سے آگ گلو گلزار بن گئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کیلے سمندر کے درمیان سے راستہ دیا گیا ۔۔ یہ خاص رعایتیں اللہ کے خواص بندوں کو خاص حالات میں دئیے گئے تھے جنھیں عام حالات میں اپلائے نہیں کرسکتے ہیں ۔
اللہ کی سنت میں علت و معلول کا قانوں بھی موجود ہے جس کے مطابق اللہ پاک نے قرآن میں صاف فرمایا ہے کہ زمین کے وارث اللہ کے نیکوکار و پریز گار بندے ہی ہونگے۔ اللہ کے نزدیک عزت کا معیار تقوی و اعلی کردار ہوگا۔ اب مسلمان اعمال قوم لوط، عاد، ثمود و نوح والے کریں مگر ساتھ آسمان سے برکات و من و سلویٰ کی تواقع بھی کریں تو الہی سنت میں ایسا ممکن نہیں یے۔ قانون علت و معلول کے مطابق تمھیں ویسی ہی زندگی میسر ہوگی جیسے تمھارے کرتوت ہیں جیسے اہل پاکستان ، افغانستان ، مسلمانان برصغیر پاک و ہند کی ہیں ۔۔۔یعنی
نہ خدا ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے