ہم اب سفاکی میں بھی خود کفیل ہورہے ہیں۔
یہ بھیانک منظر پہلے ہم مقبوضہ کشمیر سے دکھاتے تھے۔ غاصب بھارتی فوج۔ منتقم مزاج پولیس آزادی کی جدوجہد کرتے کشمیری نوجوانوں کو موت کی وادی میں دھکیل رہی ہوتی تھی۔یہ شرمناک مناظر ہم مقبوضہ فلسطین سے دکھاتے تھے۔ غاصب یہودی اسرائیلی سیکورٹی فورسز آزادی کے نعرے لگاتے فلسطینیوں کو بے دردی سے اجل کے سپرد کرتی تھیں۔ کشمیری، فلسطینی مائیں بہنیں بین کرتیں، آہیں بلند کرتیں ٹی وی اسکرینوں پرنظر آتی تھیں۔
اب ہمیں سرحد پار سے۔ دور دراز مشرق وسطیٰ سے ایسے مناظر درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ ہم مہنگائی کم بے شک نہ کرسکیں ، قرضے بلاشُبہ نہ اتار سکیں۔ ہم غربت کی لکیر سے نیچے لاکھوں ہم وطنوں کو جانے سے نہ روک سکیں۔ مگر ہمارے پاس آنسو گیس کے شیل بے حساب ہیں۔ ہمارے ٹینکروں میں ہم وطنوں پر برسانے کیلئے پانی فراواں ہے۔ نوجوانوں کے سروں پر ٹھوکنے کیلئے لاٹھیاں ہیں۔ ہماری جانباز پولیس۔ مقبوضہ کشمیر۔ مقبوضہ فلسطین کے مناظر سے بہت کچھ سیکھ چکی ہے۔ امریکہ ہمارا سرپرست ہے۔ امریکی سفید فام پولیس نے بھی ہماری رہنمائی کی ہے کہ کس طرح سیاہ فام ہم وطنوں کے نرخرے پر اپنے مضبوط گھٹنے کا دبائو بڑھایا جاتا ہے۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ گزرے ہفتے پر خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے مگر مجھے تو اپنے نواسے کی آنکھوں میں سرخی دہکتی نظر آرہی ہے۔ اس نے 16دسمبر 2014کو بھی یہی سوال کیا تھا کہ نانا۔ ہم ان کو کیوں نہیں بچاسکے۔ اب بھی یہی پوچھے گا۔ اورکتنے نواسے نواسیاں، پوتے پوتیاں، بیٹے بیٹیاں اپنے نانائوں، دادائوں، باپوں، مائوں سے یہی سوال کررہے ہوں گے کہ ہم اس نوجوان کی زندگی کیوں نہیں بچاسکے۔ جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ ہماری جان و مال کی حفاظت کریں۔ وہی ایک نوجوان۔ ایک خاندان کے بڑھاپے کے سہارے، ایک نہتے ہم وطن پر کس طرح یلغار کررہے تھے۔ کیا کیا تھا اس بیٹے نے۔ کیا وہ خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھا ،کیا اس کے پاس راکٹ لانچر تھا؟
ہماری پولیس اپنے حاکموں کی فرمانبردار ہے۔ ان منتخب سربراہوں۔ غیر منتخب نگراں وزیروں کا منہ زبانی فرمان ہی آئین ہے۔ قانونِ وقت ہے۔ اتنے تابعدار اہلکار کہ وہ اکیسویں صدی سے ایک دم انیسویں صدی میں پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ کا کوئی ڈر نہیں رہتا۔ انہیں موبائلوں میں لگے بہت طاقتور کیمروں سے کوئی خوف نہیں ہوتا۔ وہ سوشل میڈیا کی طاقت سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ انہیں شاہی فرمان بجالانا ہوتا ہے۔ انہیں صرف اپنی محکمہ جاتی ترقی کی خوشخبری سننے کا انتظار ہوتا ہے۔ انہیں اپنے گلی محلّوں میں پھرتے۔ اپنی آنکھوں میں خواب لئے۔ اپنی ڈگریاں اٹھائے نوجوان یاد نہیں رہتے، جن میں ان کے اپنے پیارے بھی ہوتے ہیں۔ کیسی فرض شناس پولیس ہے۔ اپنے سینئرز کی بارگاہ میں کیسے سرخرو ہوتی ہے۔
یہ سطور میرے قلم سے جب از خود کاغذ پر منتقل ہورہی ہیں تو میرے ضمیر اور دماغ کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ میرا دماغ کہہ رہا ہے، یہ جو کچھ ہو رہا ہے سب کچھ منطقی ہے۔ تاریخی ہے۔ پاکستان کے ماہ و سال کہہ رہے ہیں کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ 1947سے واقعات جن جنگلوں، گھاٹیوں، اندھے کنوئوں، طوفانی دریائوں، سنّاٹوں سے گونجتے صحرائوں، مکر و فن سے بھرے بازاروں، اقتدار کی غلام گردشوں، منافقت کے فیسٹیولوں، بے حسی کی عدل گاہوں، حکمرانی کے عشرت کدوں سے گزرتے رہے ہیں۔ منتخب سیاسی حکمراں آئے۔ غیر منتخب نگراں آئے۔ فوجی آمر آئے۔ کرنے والے کام بہت کم نے کئے۔ وہ غیر ضروری اقدامات میں الجھتے رہے۔ کچھ نظریے لے کر آئے۔ پھر انہیں ڈاکٹرائن کہا جانے لگا۔ اکیسویں صدی میں اسی ہرزہ سرائی کو بیانیے کا لقب دے کر بیان کو رُسوا کیا گیا۔ جسم آزاد ہوتے رہے۔ ذہن غلام بنتے گئے۔ 1985سے غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ کرکے مسائل میں گھرے کروڑوں کو جمہوریت کے نام پر قبائلی سرداروں، جاگیرداروں، ٹھیکیداروں، نودولتیوں، گملوں میں اگتے رہبروں کی گرفت میں دے دیا گیا۔
میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑ رہا ہے۔ جب ہم نے گندم لگائی ہی نہیں تو کھیتوں میں گندم کے خوشے دیکھنے کی آرزو کیسی۔پارلیمنٹ میں جب ہم نے سوچنے، سمجھنے، روڈ میپ ترتیب دینے والے نمائندے بھیجے ہی نہیں تو اس کی اداروں پر بالادستی کیسے ہو سکتی ہے؟ انہیں ٹکٹ خدمات پر نہیں ملتے۔ انکی دولت پر دیے جاتے ہیں۔ یا آنکھوں سے اوجھل قوتوں کے کہنے پر دیے جاتے ہیں۔ وفاداریاں بھی ان کے کہنے پر بدلی جاتی ہیں۔ واہگے سے گوادر تک قبائیں ادھڑتی نظر آرہی ہیں۔ تمنّائوں کی شاہراہوں پر گڑھے پڑ رہے ہیں۔ فضائی حدود میں خوابوں کی کرچیاں بکھری ہوئی ہیں۔ شہر قصبے، گائوں دلدلوں میں بدل رہے ہیں۔ یہ سب ہمارے اپنے راج دلاروں کی پالیسیوں اور اعمال کا نتیجہ ہے۔ کہیں سے آواز آئیگی۔ یہ ماتم یہ آہ و فغاں توبہت ہوچکی۔ مسئلے کا حل بتائیے تو سنئے۔ کتنے دانشوروں کی نسلیں، قابل احترام اساتذہ کے قافلے، حسن ناصروں، خواجہ رفیقوں، حبیب جالبوں، ڈاکٹر نذیروں، شیخ ایازوں، گل نصیروں، آئی اے رحمانوں، فارغ بخاریوں، ارشاد حقانیوں، کائوسجیوں نے بہت راستے بتائے، لیکن کون سنتا ہے۔ آپ بھی جب ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو پیداواری وسائل پر قابضوں کو ہی مینڈیٹ دیتے ہیں۔ آپ کا ضمیر کبھی نسل کے تابع ہو جاتا ہے۔ کبھی زبان کا یرغمال ہو جاتا ہے۔ کبھی برادری غالب آجاتی ہے۔ میڈیا آزاد ہوتا جارہا ہے۔ مگر ریٹنگ کی زنجیروں میں بندھا ہے۔ وہ انہی کی باتیں سناتا ہے۔ انہی کو دکھاتا ہے۔ جن کے خاندان ان ابتلائوں کے ذمہ دار ہیں۔ بہت سے کالم نویس، تجزیہ کار، ماہرین قانون، آئندہ دس پندرہ سال کیلئے رہنما خطوط دیتے ہیں۔ مگر ہمیں صرف اگلے دس پندرہ دن کی دوا چاہئے۔ شفائے کاملہ سے ہمیں خوف آتا ہے۔
جو بھی کسی مسند پر بیٹھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ مسند ہمیشہ اسی کے پاس رہے گی۔ اسے کبھی لقمۂ اجل نہیں بننا۔ کبھی ریٹائر نہیں ہونا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب عبوری ہیں۔ کل کی خبر تو کیا آج کی خبر بھی کسی کو نہیں ہے۔ آج جس انتہائی تکلیف دہ۔ پریشان کن صورت حال سے 22 کروڑ پاکستانی دوچار ہیں۔ یہ عبوریوں کے دائمی ہونے کے زعم کا منطقی نتیجہ ہے۔ کوئی فرد دائمی نہیں ہے۔ مملکت دائمی ہے۔ سسٹم دائمی ہوتے ہیں۔ سسٹم بنے ہوئے ہیں۔ ان کی پابندی میں ہی ملک کی خوشحالی کو دوام ہے۔ سسٹم کی حرمت کے تحفظ کے لئے عدلیہ کے فیصلے کارگر مانے جائیں تو تاریخ کا پہیہ چل سکتا ہے۔ ہر انسان اس دھرتی پہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ وہ عزت کے لائق ہے۔ مائیں اس لئےبیٹے بڑے نہیں کرتیں کہ ان کے دماغوں پر لاٹھیاں برسائی جائیں۔ عدلیہ کے فیصلے تسلیم کریں ورنہ تاریخ کے فیصلے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔