100

عمران خان کے لئے امریکیوں کی کھلی مداخلت

 عمران خان نے اپنی حکومت خاتمہ میں امریکہ کو براہ راست ملوث قرار دیا اور پی ڈی ایم حکومت کو پہلے دن سے لیکر آج تک امپورٹڈ حکومت کے طعنے دے رہے ہیں۔عمران خان نے حکومت خاتمہ میں امریکہ اور پاکستان میں امریکی سازشیوں کے کردار پر دل کھول کر بھڑاس نکالی۔جلسوں میں"ہم کوئی غلام ہیں جو آپ کہیں گے ہم مان لیں گے"۔" امریکی سازش مردہ باد"۔"امپورٹڈ حکومت مردہ باد"۔ "میر جعفر اور میر صادق"۔Absolutely Not  جیسے زبان زد عام طعنے اور نعرے لگائے گئے۔ بار بار امریکی دفتر خارجہ و اہم امریکی حکام سازش بیانیہ پر ردعمل دیتے ہوئے نہ صرف اس الزام کو مسترد کرتے رہے بلکہ اس الزام کو من گھڑت قرار دیتے رہے۔ چھ ماہ سے زائد عرصہ تک امریکی سازشی تھیوری کا منجن خوب بیچا گیا۔ پھر اسکے بعد برف پگھلنا شروع ہوگئی بلکہ آہستہ آہستہ امریکی سازش بیانیہ خود عمران خان اور پی ٹی آئی رہنمائوں کی زبانوں سے کھسکنا شروع ہوگیا۔امریکی سازش بیانیہ کی تدفین کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ماہ نومبر میں پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات ہوئی۔ اسکے بعد پاکستان تحریک انصاف کیساتھ امریکیوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔  ماہ فروری میںامریکی سفیر و امریکی حکام سے ملاقات کے بعد فواد چوہدری نے ٹویٹ کیا کہ امریکی سفیر اور اعلیٰ حکام سے اچھی ملاقات ہوئی۔ پاکستان میں انسانی وسائل کی بگڑتی ہوئی صورتحال بحث کا خاص مرکز تھی۔ میں نے امریکی حکام کو پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے سیاسی مخالفین کے خلاف انسداد دہشت گردی اور توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال پر پی ٹی آئی کے خدشات سے آگاہ کیا۔یعنی جس امریکہ نے پی ٹی آئی حکومت ختم کروائی اسی امریکہ بہادر کو پاکستانی حکام کی شکایت لگائی گئی۔مارچ کی 12تاریخ کو فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ظل شاہ قتل پر امریکی کانگریس مین بریڈ شرمین کا زبردست بیان سامنے آ رہا ہے۔اس قتل کے نتائج حکمران جنتا کے اندازے سے کہیں زیادہ ہوں گے۔پی ٹی آئی و امریکی تعلقات کی مضبوطی کا اندازہ فواد چوہدری کے اس ٹویٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب کو پیشگی ہی معلوم تھا کہ امریکی ظل شاہ قتل پر بیان دینے والے ہیں۔ ماہ مارچ کے اوائل میں عمران خان نے امریکی وفد سے ملاقات میں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔امریکی وفد نے زمان پارک لاہور میں عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔یعنی جناب عمران خان نے انہی سے ملاقاتیں کرنی شروع کردیں بقول عمران خا ن جن   امریکیوں نے پاکستان میں موجود میر جعفر وںاور میر صادقوں کیساتھ ملکرسازش کے تحت پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کروایا۔ عمران خان کے حسب روایات یوٹرن لیتے ہوئے بیانیہ پر یہی شعر ذہن میں آیا کہ "زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا ۔بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے"۔ آج پی ٹی آئی کے کسی جلسے میں آپکو امریکہ مخالف کوئی بیان نظر نہیں آئے گا۔ نیوٹن کا بیان کردہ تیسرا قانون " عمل جتنا شدید ہو گاردعمل بھی اتنا ہی شدید ہو گا" جو ہم نے میٹرک کے نصاب میں پڑھ رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے امریکی سازش بیانیہ کی تدفین کے بعدآج نیوٹن کے تیسرے قانون کی عملی شکل بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ چونکہ پی ٹی آئی نے امریکہ کے خلاف بیان بازی بند کردی ہے تواسکے ردعمل میں امریکہ کی جانب سے بھی شدید خوشگوار ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ماہ رواں کے وسط میں امریکہ میں ڈیموکریٹ کانگریس مین ایرک سوال ویل نے کہا ہے کہ عمران خان اور ان کے حامیوں پر تشدد ناقابلِ قبول ہے۔ایرک سوال ویل نے کہا ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت کی سابق وزیراعظم کو گرفتار کرنے اور دھمکیاں دے کر سیاسی اختلاف کو خاموش کرانے کی کوشش ناقابلِ قبول ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام فریقین پر زور دیتا ہوں کہ وہ مزید تشدد سے بچیں، ان باتوں سے ہمارے دیرینہ دوطرفہ تعلقات کو خطرہ ہے۔ایرک سوال ویل نے مزید کہا کہ پاکستان میں تمام فریقین پُرامن سیاسی عمل میں شامل ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات علاقائی استحکام اور سلامتی کے لیے اہم ہیں۔اس سے پہلےافغانستان کے لیے سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستان کو تین بحرانوں کا سامنا ہے، یہ بحران سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے ہیں۔زلمے خلیل زاد نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان کا سیاسی بحران مزید گہرا ہو گا۔پاکستان کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ایک بیان میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ یہ سنجیدہ ، جرات مندانہ سوچ، اور حکمت عملی کا وقت ہے، سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالنا، پھانسی دینا، قتل کرنا غلط راستہ ہے۔خرابی کو روکنے کے لیے جون کے اوائل میں قومی انتخابات کے لیے ایک تاریخ مقرر کریں، جو پارٹی الیکشن جیتے گی اسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہو گا کہ کیا کرنا چاہیے۔دوسری طرف دفتر خارجہ نے ”پاکستان میں انتخابات اور عمران خان کی گرفتاری“ سے متعلق افغانستان میں سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے بیان پر شدید ردعمل دیا ۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی سطح پر چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کسی سے لیکچرز یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ امریکیوں کے پاکستان کے متعلق بیانات پر پاکستانی دفتر خارجہ سے پہلے عمران خان کی جانب سے سخت ردعمل آتا کہ جناب امریکہ بہادرAbsolutely Not   براہ مہربانی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں یہ ہمارا پاکستانیوں کا اپنا معاملہ ہے۔کاش عمران خان کا یہ بیان آتا کہ انکی جماعت پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت پر امریکہ کی پرزور مذمت کرتی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے مفادات کی خاطر امریکہ مردہ باد ریلیوں کا انعقاد کرتے ہیں مگر اندرون خانہ انہی امریکیوں کیساتھ گٹھ جوڑ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔سب سے اہم بات آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے جو امریکی کھل کر عمران خان کی محبت میں سامنے آچکے ہیں؟

بشکریہ اردو کالمز